میٹھا زہر

فلمی صنعت ابتدا سے ہی عوام کی توجہ کا مرکز رہی ہے بالخصوص ہالی وڈ تو دنیا بھر کی فلمی صنعتوں کو نئے نئے رجحان بخشتی ہے۔ فلموں میں عوام کی دل چسپی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام وقتی طور پر اپنے غموں، پریشانیوں کو بھول کر پردے پر دکھائے جانے والے کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔فلموں کے ساتھ ساتھ ڈراموں میں بھی عوام کی دل چسپی بہت زیاد ہ ہوتی ہے بلکہ فلموں کی نسبت ٹی وی ڈرامے تک عوام کی زیادہ تعداد کی رسائی ہوتی ہے کیوں کہ ڈرامے ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں اور خواتین ان میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔

فلموں اور ڈراموں کو نہ صرف تفریح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ذریعے غیر محسوس انداز میں عوام کی ذہن سازی Brain washing کی جاتی ہے۔ عام طور سے یہ سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ فلموں اور ٹی وی میں وہی کچھ دکھایا جاتا ہے جو معاشرے میں ہورہا ہے، جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹی وی ڈراموں میں وہ کچھ دکھایا جاتا ہے جو کہ ڈرامے بنانے والے معاشرےمیں عام کرنا چاہتے ہیں۔ڈراموں کے ذریعے ہمارے معاشرے میں جو تبدیلی لائی جارہی ہے یہ ایک موضوع کافی طویل ہے۔ فی الوقت ہم ہالی ووڈ کے معروف کارٹون کرداروں کے ذریعے خفیہ انداز میں کی جانے والی ذہن سازی کی بات کریں گے۔

ڈزنی لینڈ عام طور سے بچوں کی فلموں اور کارٹون کے حوالے سے مشہور ہے۔ڈزنی لینڈ کی ایک مشہور کارٹون فلم “جنگل بک” ہے۔جنگل بک(Jungle Book ) ایک برطانوی مصنف کے ناول پر مشتمل فلم ہے۔یہ ناول 1896میں لکھا گیا۔ جنگل بک ایسی فلم ہے جو بچوں میں بہت مقبول رہی ہے۔ 1942 سے 2018 تک اس کو کم و بیش 25 مرتبہ فلم یا کارٹون کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتنی مقبول فلم ہے۔ اب اس فلم کے کرداروں کاجائزہ لیتے ہیں۔

بنیادی طور پر یہ فلم ایک ہندوستانی بچے ’’ موگلی ‘‘ کے گرد گھومتی ہے جو کہ جنگل میں بھیڑیوں کے ساتھ پلا بڑھا ہے۔یہ واضح رہے کہ یہ فلم ہندوستانی بچے کے گرد گھوم رہی ہے اور جنگل ہندوستان میں ہے۔اسی نسبت سے بچے کا نام ’’ موگلی ‘‘ ہے۔ اس کو پالنے والی مادہ بھیڑیا کا نام “رکھشا” ہے۔ موگلی کے ۲ دوست بھی ہیں جن میں سرِ فہرست” بگیرا” نامی ایک تیندواہے جب کہ “بلو” نام کا ایک بھالو بھی موگلی کا گہرا دوست ہے۔ان تمام کرداروں پر غور کیجیے۔ تمام کردار مثبت ہیں۔ان تمام مثبت یا اچھے کرداروں کےنام ہندووانہ ہیں یا بزبانِ دیگر یہ کردار ہندو ہیں۔ جب کہ فلم کا ولن ایک ٹائیگر ہے اور حیرت انگیز طور پر اس کا نام ہندووانہ نہیں ہے بلکہ اس کا نام مسلمانوں والا ہے یعنی ’’ شیر خان‘‘ گویا کہ فلم کے تمام اچھے کردار ہندو ہیں اور فلم کا سب سے برا کردار یا ولن مسلمان ہے۔

کیا یہ محض اتفاق ہے؟ جب سارا ماحول ہندوستانی ہے، تمام کرداروں کےنام ہندووانہ ہیں تو کیا کہانی کے ولن کا نام

“شیر سنگھ” ،”شیر بھگت”، “شیر چند” یا ” شیر رام ” نہیں ہوسکتا تھا؟ ہوسکتا تھا ، بالکل ہوسکتا تھا ۔لیکن درحقیقت یہاں برطانوی مصنف نے 1857کی جنگِ آزادی کو سامنے رکھا اور مسلمانوں کی کردار کشی کے لیے اس کہانی کے سب سے بُرے کردار کو مسلمان کے طور پرپیش کیا۔

2016 میں بنائی گئی جنگل بک میں ایک چھوٹا سا لیکن انتہائی اہم منظر بھی ہے۔ بظاہر وہ ایک غیر متعلق اور غیر اہم منظر ہے لیکن درحقیقت اس منظر میں ہندوانہ عقائد کی بھرپور عکاسی اور ترویج کی گئی ہے۔ منظر یہ ہے کہ بگیرا، موگلی کو جنگل سے باہر انسانوں کی بستی کی طرف لے کر جارہا ہے۔ ایک جگہ اچانک ان کے سامنے ہاتھیوں کا ایک غول آجاتا ہے۔ بگیر ا فوراً اپنا ماتھا زمین پر ٹیکتا ہے ( یعنی ہاتھیوں کو سجدہ کرتا ہے) اور موگلی کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ساتھ ہی سرگوشیوں میں موگلی کو بتاتا ہے کہ ہمیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے۔ یہ جنگل انہی کی وجہ سے بنا ہے وغیرہ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہاتھیوں کو دیکھ کر سجدہ کرنا اور یہ کہنا کہ جنگل انہی کی وجہ سےقائم ہوئے ہیں ان کا کیا مقصد ہے؟ دراصل ہندوؤں کے مقدس دیوتائوں میں ایک “گنیش ” بھی ہیں جن کا دھڑ انسان کا اور سر ایک ہاتھی کا ہے۔ دراصل یہاں ہاتھی کو نہیں بلکہ “گنیش” کو سجدہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

بالکل اسی طرح کا ایک اور کردار”ٹارزن” ہے۔ ٹارزن بھی جنگل میں پلا بڑھا ہے فرق یہ ہےکہ موگلی ایک بچہ ہے جب کہ ٹارزن ایک نوجوان ہے۔ موگلی کو بھیڑیوں نے پالا ہے جب کہ ٹارزن کی پرورش گوریلوں نے کی ہے۔ٹارزن ایک افسانوی کردار ہے ۔ یہ کردار ایک امریکی مصنف نے تخلیق کیا۔ ٹارزن کا کردار سب سے پہلے 1912میں سامنے آیا اور نہ صرف آیا بلکہ چھا گیا۔ اس کے کارٹون بنے، فلمیں بنیں۔ ساتھ ہی یہ مزاحیہ کردار بھی تھا اور کئی انگریزی رسالوں میں باقاعدگی سے اس کی کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔ پاکستان میں روزنامہ جنگ میں کئی دہائیوں تک روزانہ ٹارزن کی کہانی شائع ہوتی رہی۔ ٹارزن کے کردار کو پہلی بار 1918 میں خاموش فلم کی صورت میں فلمایا گیا۔ٹارزن کے کردار کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ یہ نہ صرف ایک مزاحیہ کردار کی حیثیت سے اخبارات کی زینت بنتا رہا ہے بلکہ 1918 سے 2016 تک اس کو فلموں، کارٹون اور ٹی وی سیریز وغیرہ میں کم و بیش 95 مرتبہ پیش کیا گیا ہے۔کسی کردار کے اوپر 95 فلمیں بننا اس کی مقبولیت کی ظاہر کرتی ہیں۔

اب ذرا غور کیجیے۔ ٹارزن کا کردار جنگل میں پلا بڑھا ہے۔ اس کے پاس پہننے کے لیے کپڑےتک نہیں ہیں اور وہ ستر پوشی کے لیے جانوروں کی کھال استعمال کرتا ہے ۔ وہ ایک بھرپور نوجوان ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر وہ کلین شیوہے۔ اس کی نہ داڑھی ہے نہ مونچھیں ، حتیٰ کہ کبھی اس کی شیو تک نہیں بڑھتی۔کسی بھی کارٹون، فلم یا کہانی میں ٹارزن کے چہرے کو دیکھیں تو بالکل تازہ شیو کیا ہوا معلوم ہوتا ہے جب کہ وہ جنگل میں رہتا ہے جہاں شیو بنانے، حجامت کرنے یا بال کاٹنے کا کوئی انتظام نہیں ہے لیکن حیرت انگیز طور پر ڈزی لینڈ یا ہالی ووڈ کی فلموں اور کارٹونز میں عام طور سے برے کرداروں یا ڈاکوؤں کی داڑھی ہوتی ہے۔ پوپائے دا سیلر مین ایک معروف امریکی کارٹون ہے۔ یہ بھی والٹ ڈزنی پکچرز کے بینر تلے فلمایا جاچکا ہے۔ اس میں بھی ولن کا کردار ہے وہ داڑھی والا ہے۔اسی طرح ڈزنی لینڈ کے مشہور کارٹونز جیسے کہ مکی ماؤس وغیرہ میں اگر کسی ڈاکو کا کردار ہوگا تو اس کو بھی داڑھی میں دکھایا جائے گا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟

جی نہیں ! یہ بالکل بھی اتفاق نہیں ہے۔ بلکہ یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنائے جاتے ہیں۔اس طرح یہ دکھایا جاتا ہے کہ جو داڑھی والے ہوتے ہیں وہ برے ہوتے ہیں۔ وہ ڈاکو ہوتے ہیں۔ان کا کردار اچھا نہیں ہوتا۔جب کہ اچھے لوگ یا ہیرو ہمیشہ کلین شیو ہوتے ہیں۔ یہ خفیہ پیغام ہوتا ہے جو کہیں لکھا ہوا نہیں ہوتا اور نہ ہی فلم یا کارٹون کا کوئی کردار اپنی زبان سے یہ بات کہتاہے لیکن فلم کی کہانی کا تانا بانا جس طرح بنا جاتا ہے اور برے کرداروں کو مسلمان یا داڑھی والا دکھایا جاتا ہے ، یہ وہ زہر ہوتا ہے جو خاموشی سے ، صفائی سے بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں میں انڈیلا جاتا ہے۔مرزا غالب نے اس بات کو کیا خوبی سے بیان کیا تھا

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...