آج کل جگہ جگہ ایک مذہبی وسیاسی جماعت کے بینرز لگے ہوئے ہیں، ایک بینر پر لکھا تھا”قوم کو لاہور اورنج ٹرین،پنڈی میٹرو بس،ملتان میٹرو بس اور پیشاور میڑو سروس مبارک،کراچی والوں ٹیکس دیتے رہو اور دھکے کھاتے رہو“
اطلاعا عرض ہے کہ کراچی کے عوام کو دھکے کھانےمیں بہت مہارت حاصل ہے، چاہے وہ رکشے کے ہوں یا بس کے، گدھا گاڑی کے ہوں یا کھلی سوزوکی کے،سڑکیں اتنی لہراتی اور بل کھاتی کے کمر کا درد بلکل ٹھیک ہوجائے،دس نمبر لیاقت آباد کی سڑک(بکرا منڈی کے سامنے والی)میں جو دھکے کھاتے جھولا جھولنے کا مزہ عوام کو دس سال تک آیا وہ بیان سے باہر ہے، کئی بار خواہش ہوئی کہ سابق مئیر اور وزیراعلی صاحب کو بھی یہاں کے دھکوں کی سیر کرائی جائے، پھر خیال آیا نجانے کراچی میں ایسی کتنی ہی سڑکیں ہونگی وہ بچارے کہاں کہاں کے دھکوں کا مزہ لینگے۔
اب آتے ہیں کراچی والوں کی طرف۔ یہاں مختلف رنگ، نسل، مذہب اور فرقوں کے لوگ آباد ہیں جن کو اپنے حقوق کی سمجھ ہی نہیں ہے،مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے اور سرکارکو کوئی سروکار ہی نہیں
روڈ صاف ستھرے اور خوب صورت ہو یا ٹرانسپورٹ کا نظا م اچھا ہواشرافیہ کو صرف اپنے پیٹ کی فکر ہے ، حالیہ بارشیں ہوئیں توسوچا اس قوم کو اب تو اپنے حقوق کی سمجھ آ گئی ہوگی اور غصے میں بھرے گورنر ہاؤس یا وزیر اعلی ہاؤس کا گھیراؤ کریں گے، لیکن ان کا حال تو ویسا ہی ہوا جیسا ایک بادشاہ کی رعایا کا تھا ۔
“ایک بادشاہ نے اپنی رعایا کو آزمانے کے لیے پہلےان کا کھانا بند کیا، پھر پانی و دیگر مراعات لیکن عوام کچھ نہ بولی، پھربادشاہ نے حکم دیا کہ کام پر آنے جانے والے راستوں پر ہر آدمی کو چانٹا مارا جائے، کچھ عرصے یہ چیز چلتی رہی آخر کار ایک دن رعایا محل کے باہر میدان میں جمع ہوگئی، بادشاہ خوش ہوا کہ چلو اب ان کو اپنے حقوق کا خیال تو آیا-عوام نے کہا بادشاہ سلامت ہمیں کام پر جاتے ہوئےدیر ہو جاتی ہےآپ سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی آپ چانٹا مارنے والوں کی تعداد بڑھا دیں تاکہ ہم وقت پر اپنے کام پر پہنچ سکے-یہی حال ہمارے کراچی کی قوم کاہے-
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا