دنیا بھر میں ٹریفک حادثات ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے، لیکن اگر کسی ملک یا شہر میں یہ حادثات معمول بن جائیں تو پھر ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔میرے سامنے ایک رپورٹ موجود ہے ،جس کے اعداد و شمار تمام متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں ۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران کراچی کی مختلف شاہراہوں پر چلنے والی ہیوی گاڑیوں ڈمپرز، ٹریلرز، واٹرٹینکرز کی غیرذمہ دارانہ ڈرائیونگ کے باعث 100موٹرسائیکل سوار کچلے گئے۔5ماہ کے دوران ٹریفک حادثات میں مجموعی طور پر122افراد جاں بحق ہوئے جون تا ستمبر بچوں سمیت79 موٹرسائیکل سوار کچلے گئے جبکہ اکتوبر2020میں ہیوی گاڑیوں نے21موٹرسائیکل سوار کچل دیا، جاں بحق ہونے والے یہ افراد وہ ہیں جو صرف ہیوی گاڑیوں ٹرک ٹرالر بسوں اور دیگر بڑی گاڑیوں کے نیچے آکر موت کے منہ میں چلے گئے، چھوٹی گاڑیوں سے ہونے والے حادثات اس کے علاوہ ہیں۔ان اعداد و شمار کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کراچی کی سڑکیں قتل گاہوں کا روپ دھار گئی ہیں ۔دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے اس شہر کی سڑکوں نے پہلے ہزاروں افراد کے خون کا ذائقہ چکھا ہے اور اب یہ قاتل ڈرائیو ر شہریوں میں موت بانٹنے میں مصروف ہیں ۔
دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ شہر میں ایک روڈ سیفٹی پلان تشکیل دیا جاتا ہے ،جس پر عملدرآمد کرکے ٹریفک حادثات میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ناپید ہے ۔یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا مقولہ چلتا ہے ۔ٹریفک حادثات کے سدباب کے لیے سب سے پہلے ہمیں شہر کی سڑکوں پر توجہ دینا ہوگی ۔ایک طویل عرصہ ہوگیا ہے کہ ہم نے کسی شاہراہ کی تزئین و آرائش ہوتے ہوئے دیکھی ہو اور اس پر مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق رواں سال ہونے والی ریکارڈ بارشوں نے ان سڑکوں سے ٹریفک کے بہاؤ کو برداشت کرنے کا رہا سہا حوصلہ بھی چھین لیا ۔شہر کے پوش علاقے ہوں یا مضافاتی، دونوں کی سڑکیں اس وقت ایک ہی منظر پیش کررہی ہیں ۔یہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ٹریفک حادثات میں اضافے کی سب سے اہم وجہ ہیں ۔رات میں اسٹریٹ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت سے حادثات رونما ہوتے ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ تو کوئی شاہراہوں کی مرمت کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی کسی کو ان سڑکوں کو روشن کرنے سے کوئی دلچسپی ہے ۔شہر کے بلدیاتی ادارے عضو معطل بن چکے ہیں ۔پہلے یہاں کے سابق میئر اور ضلعی صدور چار سال تک اختیارات کے نہ ہونے کا رونا روتے چلتے بنے اور اب ان کے بعد ایڈمنسٹریٹرز(منتظمین) کی شکل میں آنے والے سرکاری افسران بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نظرآتے ہیں۔شہر میں ٹریفک کے نظام کو درست کرنے اور حادثا ت میں کمی لانے کے لیے سڑکوں کی ازسر نوتعمیر ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔
غیر تربیت یافتہ ڈرائیور ز کی وجہ سے بھی شہر میں ٹریفک حادثات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے اپنے کم عمر بچوں کے حوالے گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں کرکے ان کو موت کا سامان خود ہی مہیا کردیا ہے ۔آپ شہر کی سڑکوں پر نکلیں تو 18سال سے کم عمر کتنے ہی لڑکے گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر فراٹے بھرتے نظر آئیں گے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغیر لائسنس کے یہ کس طرح سڑکوں پر گاڑیوں کو لے کر آجاتے ہیں ۔قانون اورٹریفک پولیس تو بعد کی بات ہے پہلی ذمہ داری تو ان بچوں کے گھر والوں کی ہے کہ وہ کسی صورت بھی ان نوعمر لڑکوں کے ہاتھوں میں گاڑی کی چابیاں نہ تھمائیں ورنہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے ذمہ دار وہ خود بھی ہوں گے بلکہ یہ قانون بنانا چاہیے کہ کم عمر ڈرائیور سے حادثہ ہونے کی صورت میں اس کے والدین کو سزا دی جائے ۔اس طریقہ کار سے بھی ٹریفک کا نظام درست ہونے میں کافی مددمل سکتی ہے ۔دوسری جانب ہمیں اپنے ٹریفک لائسنس کے نظام کو بھی درست کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بہتری ضرور آئی ہے اور اب لائسنس کے اجرا کے عمل کو کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا ہے لیکن کوئی بھی بارسوخ شخص اپنے تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے ٹریفک لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔دنیا بھر میں ٹریفک لائسنس کا حصول بہت زیادہ مشکل سمجھا جاتا ہے ۔مختلف ٹیسٹ اور امتحانات کے بعد کسی شخص ڈرائیونگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ہمیں بھی ترقی یافتہ ممالک کی پیروی کرتے ہوئے اپنے نظام کو بہتر بنانا ہوگا ۔
شہر میں ہیوی ٹریفک کے داخلے کے حوالے سے بھی قواعد و ضوابط موجود ہیں ۔دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کا شہر کی شاہراہوں پر داخلہ ممنوع ہے لیکن یہ پابندی ہمیں صرف کاغذوں پر ہی نظرآتی ہے ۔صبح سے لے کر رات تک بڑے بڑے ہیوی ٹریلرز اورٹرک شہر کی سڑکوں پر دندناتے نظرآتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اس ہیوی ٹریفک کے لیے لیاری ایکسپریس اور ناردرن بائی پاس کو مختص کیا جائے اور شہر میں ہیوی ٹریفک کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کی جائے ۔
ٍٍ قوانین پر عملدرآمد کیا جائے تودنیا کا وہ کون سا مسئلہ ہے جو حل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ہم اگر صرف ٹریفک کی بات کریں تو قوانین پر عملدرآمد ٹریفک پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن یہ جس طرح اپنی ذمہ داریوں کو ادا کررہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے ۔شہر کی سڑکوں پر مختلف جگہ کھڑے ہو کر رکشہ ٹیکسی ،بسوں ،منی بسوں اور سوزوکیوں سے ”نذرانہ“ وصول کرنے میں مصروف ٹریفک پولیس کے افسران اور اہلکار پیشہ وارانہ رویے سے کوسوں دور نظرآتے ہیں ۔بسوں کی چھتوں پر لوگ سفر کررہے ہوں تو ان کی بلا سے ،چنگ چی رکشہ میں 9افراد سوار ہوں بھی تو کوئی بات نہیں ،کوئی نوعمر لڑکا ڈرائیونگ کررہا ہے تو بھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ان کا اصل مسئلہ ان کی جیب ہے ۔یقیناً تمام اہلکار اس طرح نہیں ہوں گے لیکن محکمے میں موجو د کالی بھیڑیں سب کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں ۔ٹریفک پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹریفک کی روانی کو بحال رکھے اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیورز کے خلاف کارروائی کرے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکاروں نے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ اس شہر کی بربادی میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے ۔شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کے بعد ایک شہری کے طور پر میری اور تمام متعلقہ اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں ۔اگر ہم نے اب بھی روڈ سیفٹی کے اصولوں کو نظرانداز کیا تو مستقبل میں ٹریفک حادثات کے واقعات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور شہر کی سڑکوں پر موت کا رقص جاری رہے گا ۔