وقت کبھی ایک سانہیں رہتا نہ ہی مہلت باربارملتی ہے۔پھرسیاست کے سینے میں تودل بھی نہیں ۔وقت پلٹنے پرجب ایک ہی لاٹھی پڑتی ہے توپھرمضبوط سے مظبوط اورطاقتورسے طاقتورپہلوان کے جسم میں بھی ٹوٹی ہڈیوں کے سواکچھ نہیں بچتا۔پورے ملک کوایک اشارے پرچلانے اورعام وخاص سب کوایک انگلی پرنچانے والے وہ سیاسی پہلوان جوخودکوکچھ یاسب کچھ سمجھ رہے تھے کہاں گئے۔؟آج کسی کوان کے جانے کے بارے میں پتہ بھی نہیں۔یہاں اس سیاست کی مارجس کوبھی پڑی وہ پھربڑے بڑے ناموں سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے نام ہوئے۔21توپوں کی سلامی اورشاہی پروٹوکول میں ایوان صدراوروزیراعظم ہاؤس آنے والے کئی شریفوں اوربدمعاشوں کوتوہم نے بھی اپنی ان گنہگارآنکھوں سے دوہاتھ اور دو پاؤں شاہی محل یاشاہی دربارسے الٹے پاؤں پیدل واپس جاتے ہوئے دیکھا۔اسی لئے جب بھی اس ملک میں شاہی دربارکادروازہ کسی کے آنے یاجانے کے لئے کھلتاہے توہمارے دل ودماغ اورذہن میں ایک جملہ آہیں بھرتے اورسسکیاں لیتے ہوئے ہمیں کچھ یاددلانے کی کوشش کرتاہے۔“یہ وقت بھی گزرجائے گا”
جس نے بھی یہ جملہ کہا بالکل ٹھیک ہی توکہا۔وقت واقعی ایک ساکبھی نہیں رہتا۔کہتے ہیں نا۔رات چاہے جتنی بھی لمبی کیوں نہ ہو، آخرسحرتوہونی ہی ہے۔وقت عروج کاہویاپھرزوال کا۔اس نے ایک نہ ایک دن گزرناہی توہے۔سابق وزیراعظم نوازشریف بھی کبھی اس ملک کے حکمران اورہمارے کپتان کی طرح سیاہ وسفیدکے مالک تھے۔آج وہ کہاں ہیں؟مکے ہوامیں لہرانے والے سابق صدرپرویزمشرف کوبھی کبھی اپنی طاقت اورحکمرانی پربڑاگھمنڈتھا۔نیب کی کیامجال والے، سابق صدرآصف علی زرداری بھی کبھی یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے تھے کہ کسی کی کیاہمت کہ وہ مجھے ہاتھ لگائے یاگرفتارکرے۔وقت کاسایہ پلٹنے پرپھراس زرداری کوکن مراحل یاراستوں سے گزرناپڑا۔اس حقیقت سے بھی پوری دنیاخوب واقف ہے۔وزیراعظم عمران خان کیاشئے ہے۔؟یہاں توان سے بھی بڑے بڑے آئے اورپھروقت کے تیزدھارموجوں میں تنکوں کی طرح اس طرح بہہ گئے کہ دیکھنے والے انہیں صرف دیکھتے ہی رہ گئے۔یہاں لیاقت علی خان۔ ذوالفقارعلی بھٹو۔ ضیاء الحق۔ایوب خان۔فاروق لغاری ۔غلام اسحاق خان۔ بینظیربھٹو۔ پرویزمشرف۔آصف علی زرداری اورنوازشریف جیسے سیاسی پہلوان سیاست کی بے رحم موجوں اوروقت کے تیزدھار تھپیڑوںسے نہیں بچے پھروزیراعظم عمران خان کس باغ اورکھیت کی مولی ہیں کہ یہ بادشاہ اسی طرح سلامت رہیں گے۔؟اصل بادشاہی صرف اورصرف میرے رب کی ہے ۔باقی یہ بادشاہیاں اورشہنشائیاں ڈرامے اور فقط ڈرامے ہیں۔پرمسئلہ یہ ہے کہ اقتدارکی رنگینیوں تک پہنچنے والے اکثرصاحبانِ مال وجلال اس حقیقت کوجان بوجھ کرجاننے اورسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔وزیراعظم عمران خان بھی گمنامی کے قبرستان میں دفن ہونے والے ماضی کے اکڑخانوں اورحکمرانوں کی طرح کہیں یہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ ہمیشہ حکمران ہی رہیں گے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ اس دنیا میں ہرعروج کوزوال بھی ہے۔عروج کواگرزوال نہ ہوتاتوتین بارملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف لمحوں میں بلندی سے پستی کی طرف کبھی نہ آتے۔پانامہ کے چندکاعذی ٹکڑوں پروزیراعظم سے غداراعظم اورمحرم سے مجرم بننے والے نوازشریف کے واقعے یاحادثے میں اہل عقل اوردانش کے لئے بڑی اورواضح ایک دونہیں کئی نشانیاں تھیں ۔کاش کہ وزیراعظم عمران خان بھی ان نشانیوں سے کچھ عبرت حاصل کرلیتے۔مگرافسوس ۔!!وزیراعظم عمران خان کواپنااقتدارمیں آناتویادرہامگروہ نوازشریف کے جانے کویکسرہی بھول گئے۔ماناکہ وزیراعظم عمران خان کواقتدارتک پہنچنے میں 22سال لگے لیکن کپتان کوایک بات یادرکھنی چاہئے کہ اقتدارسے جانے میں سال،مہینے،ہفتے اوردن توبہت دور۔منٹ اورسیکنڈبھی نہیں لگتے۔وقت پلٹنے کی دیرہوتی ہے۔جونہی وقت پلٹاکھاتاہے توپھر ہاتھ ملنے، آنسوبہانے، چیخنے اورچلانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔ کپتان کواگراب بھی یقین نہیں تووہ تاریخ اٹھاکردیکھیں۔گمنامی کے قبرستان میں جگہ بنانے والے بہت سے حکمران اورپھنے خان بھی وزیراعظم عمران خان کی طرح اپنے آپ کوکچھ سمجھتے تھے۔بعض کاتومرغے کی طرح یہ خیال اورگمان تھاکہ اگروہ نہیں رہے توپھرصبح بھی نہیں ہوگی لیکن وقت نے پھردیکھنے والوں کودکھایااورسننے والوں کوسنایاکہ صبح توہوئی پرخودکوناگزیرسمجھنے اورقراردینے والے وہ پہلوان پھراس مٹی پر نہیں رہے۔گجرانوالہ۔کراچی اورکوئٹہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے تاریخی جلسوں سمیت ملک کے اندر اس وقت پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جوکچھ ہورہاہے یہ میرے کپتان کے لئے محض ایک چھوٹاسااشارہ ہے۔انسان جوبوتاہے وہ پھراسے کاٹنابھی پڑتاہے۔وزیراعظم نے دوسال میں کیابویایاوہ اب کیابورہے ہیں۔یہ ہم سے زیادہ وہ خوداچھی طرح جانتے ہیں۔ہم نے پہلے بھی کہاتھااورآج بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کووہ فصل نہیں بونی چاہئے جسے کل کاٹنے میں انہیں کسی تکلیف یامشکل کاکوئی سامناہو۔سیاست میں سارے دروازے بندنہیں کئے جاتے لیکن کپتان نے اقتدارسنبھالنے کے بعداکثرسیاسی مخالفین کوبندکرنے کے ساتھ سارے دروازوں کوتالے لگانے کی بھی ہرممکن کوشش کی ۔اپوزیشن کودیوارکے ساتھ لگانے پراب تک یہ جوازپیش کیاجاتارہاکہ کپتان اورکپتان کے کھلاڑی بڑے ایمانداراورساری اپوزیشن چوروں کاٹولہ ہے اس لئے ان سے کسی بھی قسم کے سمجھوتے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔لیکن اسی ایماندارکپتان کے ایک ایماندارکھلاڑی میجر(ر)طاہرصادق نے پی ٹی آئی کی دوسالہ حکومت میں ریکارڈکرپشن کی خوشخبری سناکرحکومت کی ایمانداری کاپول پہلے ہی کھول کے رکھ دیاہے۔اپوزیشن کودیوارکے ساتھ لگانے۔مسلم لیگ ن۔پیپلزپارٹی اوردیگرسیاسی جماعتوں کے ممبران اسمبلی اورعہدیداروں کونیب کے ذریعے کھلونابنانے۔مولاناکوڈیزل ڈیزل کہہ کرپکارنے اورنوازشریف وزرداری کے بارے میں ہرجگہ چوروڈاکوکاوردکرنے کے بعدبھی اگرملک سے کرپشن ختم نہیں ہوئی توپھرمیرے کپتان کوکم ازکم اپنی اداؤں اوراناؤں پرکچھ غورتوضرورکرناچاہئے۔جس اپوزیشن کوچوروں کاٹولہ کہہ کروقت کے وزیراعظم کوئی اہمیت نہیں دے رہے کل کواگریہی ٹولہ ملک کے وزیراعظم کوکوئی اہمیت اورحیثیت نہ دیں توپھرکیاہوگا۔؟اپوزیشن والے تویہ سوچ کرکہ، یہ وقت بھی گزرجائے گا وزیراعظم عمران خان اوران کی حکومت کے ہرقسم کے مظالم برداشت کرتے جارہے ہیں پر وزیراعظم عمران خان کواس کی کوئی پرواہ نہیں ۔حالانکہ “یہ وقت بھی گزرجائے گا”کے یہ الفاظ اورجملہ وزیراعظم عمران خان کابھی ہروقت منہ چڑارہاہے۔آج عمران خان کے پاس اقتدار،حکمرانی اورطاقت ہے ۔اپوزیشن کے پاس کچھ نہیں۔ کل کواگریہی حکمرانی ،اقتداراورطاقت آج کی اس اپوزیشن کے پاس ہوئی اورعمران خان کے پاس کچھ باقی نہ رہا توپھرمیرے کپتان کاکیاہوگا۔؟اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ حکومت،اقتدار،دولت،شہرت،طاقت اورشاہانہ پروٹوکول ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ یہ تووقت کاکھیل ہے۔جب بھی وقت نے پلٹاکھایاتوعروج زوال اورزوال عروج میں تبدیل ہوگا۔کیونکہ وقت بدلنے میں دیرنہیں لگتی۔اس لئے کپتان اپنی باقی ماندہ حکمرانی کومہلت سمجھ کراسے دوسالہ گناہوں کاکفارہ اداکرنے کاذریعہ بنائیں۔ویسے وزیراعظم عمران خان انتقام کی آگ جلائیں یاانصاف اورمحبت کی شمع روشن کریں۔وقت نے ویسے بھی گزرناہے۔یہ توگزرکرہی رہے گا۔