درد دل بھی عجیب چیز ہے ۔۔۔۔درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ۔۔۔یہ بھی انسان کی اچھی صفات میں ایک بڑی اچھی صفت ہے اور اس وجہ سے انسان تمام مخلوقات میں ایک ممتاز مقام پر پہنچتا ہے ۔ درد دل ۔۔دوسروں کے دکھ اور تکلیف کو محسو س کرنا اور پھر اس کے لیے اپنے تیئں کوشش کرنا کہ کہ یہ دکھ یا تکلیف ختم کیا جاسکے یا کم ہی کیا جاسکے ۔ یہ صفت بھی انسانوں میں بھی کم خوش نصیبوں کی جھولی میں آتی ہے ۔۔۔۔جب انسان دوسروں کی تکلیف پر تکلیف محسوس کرتاہے ۔
ابو جہل ایک یتیم لڑکے کا وصی تھا وہ لڑکا ایک بار اس حالت میں اس کے پاس آیا کہ اس کے جسم پر کپڑے تک نہ تھے اس نے ابوجہل سے کہا کہ میرے پاب کے مال سے کچھ دے دے مگر ابوجہل نے اس کی طرف توجہ نہ کی آخر تھک ہار کر وہ سرداران مکہ جوکہ خانہ کعبہ میں بیٹھے تھے ان کے پاس پہنچا اور ان سے فریاد کی کہ وہ ابوجہل سے سفارش کردیں تاکہ کچھ اس کو ابو جہل اس کے باپ کےمال سے دے دے ۔ مشرکین تو موقع کی تلاش میں ہی رہتے کہ کب کوئی موقع ہاتھ آئے اور اس کو حضور ﷺ کو تکلیف دینے کے لیے استعمال کریں انہوں نے اس یتیم لڑکے کو کہا کہ وہ جو اس طرف صاحب بیٹھے ہیں ان سے جاکر کہو ۔ وہ تمہیں تمہارا مال ابو جہل سے دلوا دیں گے ۔ اس لڑکے کو وہ حضور ﷺ کے پاس بھیج کر کسی نئی جھڑپ کی تمنا لیے دیکھ رہے تھے کہ اس یتیم لڑکے نے سارا اپنا حال حضور ﷺ کے گوش گزار کردیا۔ حضورﷺ فوراٰٰ اٹھے اور اس لڑکے کو ساتھ لے کر ابو جہل کے دروازے پر جاپہنچے اور دروازے پر دستک دی جب ابوجہل آیا تو آپ ﷺ نے اس سے لڑکے کے مال کی واپسی کا کہا وہ بغیر پس و پیش کیئے اند ر گیا اور مال واپس لا کر لڑکے کے حوالے کیا ۔ یہ منظر سرداران دیکھ رہے تھے ۔ بعد میں انہوں نے اس پر ابوجہل کو اس پر طعنہ بھی دیا کہ تم بھی اپنے دین کو چھوڑ گئے اس پر ابو جہل نے کہا کہ نہیں خدا کی قسم میں نے اپنا دین نہیں چھوڑا۔ جب محمد ﷺ میرے دروازے پر آئے اور لڑکے کے مال کی واپسی کا مطالبہ کیا تو میں نے دیکھاکہ ان کے دونوں اطراف دو حربے ہیں جوکہ میرے اندر پیوست ہوجائیں گے اگر میں نے محمد ﷺ کی بات ماننے سے انکار کیا ۔
اس طرح کے واقعات سے حضور ﷺ کی حیات طیّبہ میں بے شمار ہیں ۔یہی درد دل حضور ﷺ نے اپنی امت کو منتقل کیا ہے اور آپ ﷺ کے بعد بھی اس طرح کے واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ۔ویسے تو پورے ملک کے حالات اس وقت ہر لحاظ سے نا گفتہ بہ ہیں مگر بات کراچی کے اس حصّے کی قابل ذکر ہے جو کہ دنیا کی سب سے بڑی کچّی آبادی کہلاتی ہے اور اس کا نام اورنگی ٹاؤن ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اورنگی ٹاؤن کی آبادی دس لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔اورنگی ٹاؤن کی آبادی دنیا کے کئی مکمل شہروں کے برابر ہے مگر چالیس سال کے بعد بھی یہ آبادی کچّی آبادی کہلاتی ہے ،زندگی کے بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ پانی مہینہ بھر کے بعد آتاہے اور کہیں سرے سے آتا ہی نہیں ۔ بجلی کا ذکر تو کیا کرنا گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہےاور پکّی سڑکیں بھی نا پید ہیں ۔ایم کیوایم نے یہاں سے ہر بار بڑی تعدا د میں بلدیاتی ، صوبائی اور قومی کی تمام نشتیں جیتی اور ہمیشہ یہاں کے رہنے والوں کو نئے خواب دکھائے مگر ہر بار پانچ سال کے بعد وہ خواب چکنا چور ہوگئے ۔ ان تمام کارناموں کے بعد یہ کام بھی کیا گیاکہ یہ آبادی بڑی صلاحیت والی آبادی تھی یہاں سے آج بھی کراچی یونیورسٹی کی بڑی بسیں دروازوں تک بھرکر طلبہ و طالبات سے صبح روانہ ہوتی ہیں اس کے علاوہ این ای ڈی اور ڈاؤ میڈیکل کالج کی بسیں بھی جاتی ہیں ۔ مگر بڑی سازش کے زریعے نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم لے کر ان کو ہتھیا ر پکڑا یا گیا ہے ۔ اس میں کسی درجے حکومت سندھ جو کہ پیپلز پارٹی اور وفاقی حکومتیں جوکہ ماضی میں رہی ہیں اور جو اب ہیں ان کا ہاتھ نمایاں ہے ۔
ایک طویل عرصے سے یہ کچّی آبادی جرائم کی اماج گاہ بنی ہوئی ہے، لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، کسی کی جان ومال ،عزت آبرو محفوظ نہیں ہے، مرد و خواتین راہ چلتے لٹ جاتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جب لوگوں کو اپنے مال کے ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ یہ لٹیرےقاتل اس معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں اور آزادانہ وارداتیں کرتے ہیں، یہ واداتیں کبھی رات کی تاریکی میں ہوا کرتی تھیں مگر اب تو دن کی روشنی میں بھی ہوتی ہیں ۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ شہریوں کی جان ومال اور عزت آبرو کا تحفّظ یقینی بنانا ان اداروں کا فرض ہے۔ جن کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی بالا دستی یقینی بنائیں مگر بد قسمتی سے یہ ادارے سیاسی جماعتوں کے خدمت گار کے طور پر کام کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں جب بھی جو سیاسی جماعت برسر اقتدار آئی اس نے ان لوگوں کو ان اداروں میں نوکریاں دیں، یہ وہی لوگ ہیں جو پہلے گلیوں اور محلوں میں بھتے کی پرچیاں تقسیم کرتے تھے توکوئی آکڑے کا اڈہ چلاتا اور کوئی دوسرے غیر اخلاقی دھندے کیا کرتا اب وہ نوکری ملنے کے بعد دھڑلے سے یہ سارے کام کرتاہے کیوں کہ اس کوایک چھتری میّسر آگئی ہے۔ آج اس آبادی کا ہر شخص خوف میں مبتلا ہے کہ کب اس کو کوئی لوٹے گا یا جان سے مار ڈالے گا ۔ اور اس کو یقین ہوگیا ہےکہ اس کی فریاد کوئی سنے گا بھی نہیں۔ لٹیر ااور قاتل اگر پکڑ ا بھی گیا تو وہ باعزت بری ہوکر دندناتا پھرے گا اور وہ کبھی ادھر کبھی ادٗھر کے چکّر لگا تا رہے گا اور پھر ہر مکین کبھی دوبارہ لٹنے کا انتظار کرتا رہے گا ۔
گذشتہ دنوں اسی طرح کے دو واقعات ہوئے ایک میرے بہت قریبی دوست جو کہ اسی آبادی کے مکین ہیں اور ان کی بڑی خدمات ہیں کہ جب اس آبادی میں لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں انہوں نے دن رات محنت کرکے بیسیوں مقامات پر بورنگ کراکے لوگوں کے لیے پانی کی قّلت کو دور کرنے کی خدمت سرانجام دی۔ ان کے صاحبزادے کویونیورسٹی سے واپسی پر سفّاک لٹیروں نے راستے میں لوٹنے کی کوشش کی اور ان کو گولیاں مار کر شدید زخمی کردیا اور فرار ہوگئے ۔ اور دوسرا واقعہ جس میں ایک فر د جس کو گولی لگی اور وہ زندگی کی بازی ہار گیا ان واقعات نے اسی درد دل کی وجہ سے یہ احساسات سپرد قلم کرنے پر مجبور کیا ۔
مگر میرے ایک دوست کشورنے ایک قصہ ّسنایا کہ ایک بار جنگل میں آگ لگ گئی سارے جانوروں نے مل کر اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرنی شروع کردی ہر جانور دریا کی طرف جائے اور پانی اپنے منہ میں بھر کرلائے اور اگ پر ڈالے ہاتھیوں کا گروہ بھی اپنے سونڈ میں پانی لائے اور آگ پر ڈالے۔ ایک چھوٹی سی چڑیا بھی بار بار اْڑ کرجاتی اور اپنے چونچ میں پانی کا ایک قطرہ بھر کر لاتی اور اس کو آگ پر ڈالتی ۔دور گدھا کھڑا یہ منظر دیکھ کر ہنس رہا تھا اس نے چڑیا سے کہا بی چڑیا ! ہاتھی اپنی سونڈ میں پانی لارہے ہیں ژرافے اپنے منہ میں پانی لارہے ہیں یہ بات تو سمجھ آرہی ہے مگر تمہاری چونچ میں پانی کتنا آئے گا جو تم آگ بجھانے کی کوشش کررہی ہو ۔ یہ سن کر چڑیا نے اڑتے اڑتے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ میری چونچ میں کتنا پانی آئے گا۔ لیکن جب آگ بجھ جائے گی تو میرا ذکر آگ بجھانےوالوں میں کیا جائے گا ناکہ آگ لگانے والوں میں اور وہ پانی لینے دریا کی طرف چلی گئی۔
اس بستی میں درد دل رکھنے والے لوگ کم تو ضرور ہیں مگر ۔۔۔۔ ان بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے ان ہی افرادکا ا یک گروہ ہے جو ہمشہ مظلوموں کی آواز بنا ہے ، جس نے ہمشہ دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا ہے ، جس نے ظلم کے آگے دیوار بننے کی اپنی سی کوشش کی ہے ۔ اس گروہ کا نام جماعت اسلامی ہے ۔آئیے جنگل کی آگ کو بجھانے کی کوشش کریں ۔