ہمیں اپنے آپ کو بے نقاب کرنے کیلئے زیادہ تر کسی ایسے نقاب پر ہاتھ ڈالنا پڑتایا نوچنا پڑتا ہے کہ جس کی بدولت دنیا میں ہماری کوئی پہچان بن جائے۔ یہ طریقہ واردات جدید دور کی ایجاد نہیں بلکہ ہمیشہ کا وطیرہ ہے بس فرق اتنا ہے پہلے وقتوں میں سماجی ابلاغ کے ذرائع حجام کی دکان، پان والے کا کھوکا یا پھر چائے کے ڈھابے ہوا کرتے تھے اور آج سماجی ابلاغ کے ایسے ذرائع ایجاد ہوچکے ہیں کہ لمحوں میں خبر کی تیاری کی خبر، دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچ چکی ہوتی ہے۔
عنوان بظاہر دوحصوں میں تقسیم دیکھائی دے رہا ہے جیسا کہ وقت رواں میں قوم دیکھائی دے رہی ہے، جی ہاں یوں تو قوم کے بے تحاشہ حصے ہوچکے ہیں۔بات کرتے ہیں بنیادی نظریات کی یعنی پاکستان کے وجود میں آنے والے نظریات کیونکہ جب تحریک پاکستان چل رہی تھی تو دو نظریے واضح تھے ایک کو ہم دوقومی نظریے سے جانتے ہیں اور دوسرا نظریہ تھا لاالہ اللہ۔ اللہ کی مدد سے نظریوں کی جیت ہوگئی اور پاکستان وجود میں آگیا اب یہ نظریے پاکستا ن کی اساس ہیں۔ اب جب کے پاکستان اپنے زمینی وجود میں آچکا، تووہ کون سے نظریے طے پائے تھے کہ جن پر چل کر پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا(گوکہ یہ نظریہ ہی کافی تھا)۔ ہم یہ بھی بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پاکستان کا پہلا آئین 1973 ء میں بنا یہ وہ اہم ترین دستاویز ہے جس کے بغیر ایک دن نہیں چلا جاسکتاتھا اور ہم نے اس اہم ترین کارہائے نمایاں کو سرانجام دینے میں تقریباً ایک نسل پروان چڑھادی (پاکستان دولخت بھی ہوچکا تھا یعنی آئینی طور پر دیکھا جائے تو ہم 1973ء میں آزاد ہوئے)یعنی چھبیس سال لگا دیئے، اب اس سے بڑا سانحہ جو ہوا وہ یہ تھا کہ نفاذ آئین کے سینتالیس سال گزر جانے کے بعد آج بھی یہ آئین نافذ نہیں ہوسکا ہے۔
اس بات کا اندازہ لگانا تاحال ناممکن ہے کہ حالات کی خرابی کے پیچھے درحقیقت کون ہوتا ہے، کون ہوتا ہے جو مجمع میں انتشار پھیلاتا ہے اور کسی ایسے انتہائی اقدام کی طرف اکساتا ہے جس کی وجہ سے املاک کیساتھ ساتھ انسانی جانوں کا بھی نقصان ہوجاتا ہے۔ یوں تو بہت آسانی سے رونماء ہونے والے حادثے یا واقع کی وجہ بیرونی ہاتھ قرار پاتاہے، یہ اور بات ہے کہ بیرونی ہاتھ اب تقریباً واضح ہوچکا ہے جو کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کا ہے۔ زیادہ پریشانی کی بات یہ ہوتی ہے کہ اس بیرونی منشور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جو آلہ کار استعمال ہوتے ہیں انکی نشاندہی مشکل ترین کام ہے، لیکن ایسے کسی بھی ہاتھ کا فعل ہونا ہماری صفوں میں خلاء کا ہونا ہے ہمارے اندرونی انتشار کا ہونا ہے کیونکہ دشمن یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ہم ذاتی مفادات کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ یہاں مذکورہ بات کو بین الاقوامی سطح پر بھی دیکھ سکتے ہیں دنیا میں اسلامی ممالک کے درمیان اسلام کیلئے کوئی ایک نکاتی منشور نہیں ہے سب اپنے اپنے خطے پر مبنی معاشی حالات کی پیش نظر تعلقات بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کی بد قسمتی ہے کہ ہم کسی بھی موقع پر سیاسی چالوں کہ بیانیوں سے اپنے آپ کو روک نہیں پاتے۔آسان لفظوں میں کہنا ہے کہ ہم جذباتی ہوجاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ کس کے ہم پر (بطور قوم) کتنے احسان ہیں۔ حال ہی میں حکومت کیخلاف جمع ہونے والی ملک کی نامی گرامی سیاسی جماعتوں نے سیاسی انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے ملک کے رکھوالوں اور صحیح معنوں میں وطن کے بیٹوں کو جن الفاظ سے پکارا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے، لیکن جذبات کی رو میں بہنے والے بہتے چلے گئے اپنے محسنوں اور دشمنوں میں فرق بھول گئے۔ قوم کا رہنما ء ہونے کا دعوی اس وقت تک بیکار ہے جب تک آپ قوم کے درمیان نہیں ہیں۔
حکومت پہلے دن سے اپنے ایک نکاتی منشور پر کاربند ہے اور تقریباً حکومت کا حصہ بننے والے بھی اس ایک نکاتی یعنی بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ہلکی یا پرزور آواز بننے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔اس بات سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں کہ مہنگائی کسی کے قابو میں آنے کو تیار نہیں ہے یہاں ایک وضاحت کرتے چلیں کہ مہنگائی کی ایک بنیادی وجہ حکومت کا متعلقہ اداروں کو امداد (سبسڈی)دینے سے انکار بھی ہے حکومت کا موقف ہے کہ ملک کے قرضے اتاریں یا نا اہل اداروں کی امداد کریں۔اب وہ وقت دور نہیں دیکھائی دے رہا کہ جب اس بے تحاشہ مہنگائی کی وجوہات بھی عوام کے سامنے آنا شروع ہونے والی ہیں اور حکومت کی مخالفت میں نکلنے والے دراصل یہی لوگ ہیں۔ جیساکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب بذات خود ہر اول دستے کی طرح ان چوروں اور لٹیروں کے پیچھے ہیں اور وہ عزم جو انہوں نے تحریک انصاف بناتے ہوئے کیا کہ اپنی آخری سانس تک ملک و قوم کو ان چوروں اور لٹیروں سے نجات دلانے کی کوشش کرتا رہونگا،کے لئے کمر بستہ ہیں۔ کیا دیکھنے والے یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ وزیر اعظم نے اپنے سب سے عزیز ترین قریبی ساتھی جہانگیر ترین صاحب کیساتھ بھی وہی کیاجو انہیں کسی اور کیساتھ کرنا تھا۔
ملک و قوم خصوصاًگزشتہ دو دہائیوں سے انتہائی زبوں حالی کا شکار رہے ہیں، ادارے تنزلی کی گہرائی کو چھوتے دیکھائی دے رہے ہیں لیکن ملک کی باگ دوڑ چلانے والوں کے اثاثوں میں ہوشرباء اضافے ہوتے چلے گئے لیکن کسی کی مجال نہیں تھی کے کوئی اس بارے میں سوال تو کر لے (لیکن چوروں اور لٹیروں کی چیخ پکار بھی اس سے پہلے ایسی نہیں سنی ہوگی) اب جب سوال کیا جا رہا ہے تو اس دور کے سارے حکمران حکومت مخالف تحریکیں چلا رہے ہیں۔ آپ کو اجازت ہے کہ شخصی اختلاف کرلیں لیکن کیا نظریاتی اختلاف اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ ملک و قوم کی دولت پر مزے کرنے والوں کا ساتھ دیں۔ یہ سوال ہر خاص و عام کیلئے ہے اور خصوصی طور پر انکے لئے جو تھوڑا بہت شعور کیساتھ پاکستان سے سچی محبت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ان اداروں کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں کہ جن کی وجہ سے آج وطن عزیز بہت سارے ایسے بحرانوں سے بچا ہوا کہ جن کی منہ بولتی تصویریں ہمارے آس پاس کے ممالک ہیں۔ جہاں حکومت وقت کا ہر کارندہ اپنے اپنے اداروں کی درستگی میں مصروف ہے اور وہ اپنے رہنماء کو اپنے ادارے کی بہترین کارگزاری پیش کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہے وہیں خان صاحب عالمی امن کیلئے،اسلام کی سربلندی کیلئے،مسلمانوں کے مساوی حقوق کیلئے اورہر قسم کے منفی نشر و اشاعت کی روک تھام کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
پاکستانی عوام کی توقعات کو آج تک کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی یہ ملک سے محبت کے جذبے سے سرشار قوم، ملک پر پڑنے والے ہر مشکل وقت میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوئی لیکن کبھی بھی کوئی سیاستدان اس قوم کی توقعات پر پورانہیں اتر سکا باحالتِ مجبوری یا سیاسی رہنماؤں کی سازشوں سے اس قوم کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور اپنے ذاتی مفادوں کے حصول کیلئے استعما ل کرنا شروع کردیا گیا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم ان توقعات سے بہت اچھی طرح سے واقف ہیں تب ہی تو ان توقعات کو قومی توقعات بنایا گیا ہے اور ان توقعات کی تکمیل کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں، آپ دیکھ لیں یہ وہ وزیر اعظم ہے جو اپنے ملک میں رہتے ہوئے ملک کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، عوام میں موجود رہنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کیونکہ خان صاحب جانتے ہیں کہ عوام کی توقعات ہی قومی تواقعات ہوتی ہیں۔