کچھ سالوں سے ایک رحجان (ٹرینڈ) دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یقینا آپ کی نظر سے بھی گزرا ہو گا۔ وہ ہے علامہ محمد اقبال کی شاعری کی بڑھتی ہوئی مقبولیت!
گو کہ یہ مقبولیت ایک صدی سے چلی آ رہی ہے۔۔۔۔ مگر اس بار رنگ ڈھنگ الگ ہیں ۔ سماجی رابطے کی ہر ویب سائٹ پر آپ کو علامہ اقبال کے اشعار نظر آتے ہیں۔یہ ایک خوبصورت نظارہ ہوتا ہے کہ نوجوان نسل کتنی شد و مد سے اقبال کے اشعار کو اپنے واٹس اپ ، فیس بک ، انسٹاگرام وغیرہ کی زینت بناتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے “ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی” ۔ مگر یہ نمی اگر پانی کی ہوتی تو خیر تھی افسوس یہ نمی سیلن کی نمی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔۔۔
علامہ محمد اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں ہماری ان سے محبت و عقیدت عمر اور نصاب کی طرح نمو پاتی بڑھتی جاتی ہے۔ بچپن میں ایک پہاڑ اور گلہری سے جو سفر شروع ہوتا ہے ، نوجوانی میں اقبال کے شاہین کی مانند خون میں گردش کرتا اور پہاڑوں کی چٹانوں پر ڈیرے ڈالتا ہوا، جوانی کے شکوہ اور جواب شکوہ سے ہوتا ہوا خودی کے راستوں پر چلتا ہوا ادھیڑ عمری و بزرگی میں کوہ کے دامن میں سکوت پر فدا ہو جاتا ہے۔ فارسی کلام کی شیرینی کے کیا ہی کہنے جو فارسی کلام کا مزہ چکھتے ہیں تو پھر ان کو ” جلوہ دانش فرنگ” ماند نظر آتا ہے۔ فارسی زبان سے واقفیت بنیادی کلید اس کی چاشنی کو محسوس کرنے کے لئے۔ ہمیں بھی جس قدر فارسی کلام سمجھ آیا اس کو بہت بہترین پایا۔۔ بلا شبہ اقبال کی شاعری بہت جامع پر فکر اور اثر انگیز ہے۔ قوم کو زندہ رکھنے کا آکسیجن ہے۔ ان کی شاعری کی فصاحت پر آپ نے بہت کچھ پڑھا ہو گا اس لئے میرا یہ موضوع قطعی نہیں ہے۔ میں پریشان ہوں اور کچھ دل کے پھپھولے ہیں جو آج آپ کے سامنے پھوڑنے ہیں۔ بذبان غالب کہوں تو ” حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں” کی کیفیت درپیش ہے۔ چاہے تو بھری محفل میں یہ راز کی بات کہہ دینے پر بڑی بے ادب سمجھ کر سزا ہی دے دی جائے۔
قصہ درد کچھ یوں ہے ، جس قدر پوسٹس نظر سے گزرتی ہیں عام دنوں میں بھی اور اب 9 نومبر کے دن بھی ،بہت ہی خوبصورت خطاطی میں اشعار لکھے ہوتے ہیں۔ ساتھ اقبال کی نہ صرف تصویر ہوتی ہے بلکہ شعر کے نیچے علامہ اقبال بھی جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ۔ مگر غم یہ ہے کہ اس شعر یا غزل کا علامہ اقبال سے ویسے ہی کوئی تعلق نہیں ہوتا جیسے چپلی کباب سے چپل کا، چرسی تکہ سے چرس کا اور ملک مالٹا اور مالٹے کی پیداوار کا۔ جن صاحبان نے اقبال کو پڑھا ہے وہ ان کے طرز بیاں سے خوب خوب واقف ہیں ۔ان کی غزلوں کا لہجہ ان کی نظموں کا لہجہ حتی کہ قطعات و طنزیہ شاعری کا لہجہ یکسر مختلف ہے۔ جو اشعار علامہ اقبال کی تصویر اور نام کے ساتھ خوشنما پوسٹس کی شکل میں ہمارے آپ کے موبائل کی سکرین پر جگمگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ان کی شاعری پر افترا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تو پھر کیوں نا نوحہ گر کو ساتھ رکھوں؟ بہت سے جاننے والوں کی بار بار تصحیح کرنے کی کوشش بھی سعی لا حاصل رہی، یہ بات بہت سوں کو پسند نہ ہو مگر ایسے اشعار علامہ اقبال سے منسوب دیکھ کر شدید اختلاج ہوتا ہے۔ یہاں قطعی یہ دعوی نہیں میرا کہ اقبال کو خوب خوب جانتی ہوں مگر اقبالیات کی ادنی سی طالبہ ہونے کی وجہ سے کچھ کچھ انداز بیاں معلوم ہے۔ہر شاعر کا ایک لہجہ ایک مزاج ہوتا ہے۔ شعر کا پہلا مصرعہ بتا دیتا ہے کہ غزل فیض صاحب کی ہے یا جون ایلیا کی۔
اس طویل بات کا مقصد آپ سب سے دست بستہ عرض کرنا تھی کہ خدارا اقبال کی شاعری کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں آپ کو جب تک یقین نہ ہو کہ یہ اقبال کا شعر ہے تو ان کے نام کے ساتھ پوسٹ نہ کریں۔ خوبصورت شعر کوئی اور اقبال بھی لکھ سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان اقبال صاحب کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہو مگر بہرحال تحقیق کر لیں۔ بہت سمجھدار پڑھے لکھے لوگ بھی اس غلطی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
بہت سے افراد سوچ رہے ہوں گے کہ یہ اقبال کی شاعری ہی ہے کون سا قرآن و حدیث کے الفاظ ہیں کہ گناہ گار ہونے کا خدشہ ہے یا اس پر کوئی وعید ہے۔ عرض خدمت ہے کہ آپ کی بات بجا ہے علامہ اقبال کی شاعری محض شاعری ہی ہے مگر جو شعر ہم علامہ اقبال کے نام سے لوگوں تک پہنچا رہے ہیں وہ کسی اور اقبال صاحب کا کلام ہو تو مشہور ہونے کا حق بھی ان ہی کو ہے۔ شاعری، نظم، نثر، مضمون یہ سب ویسی ہی ملکیت ہے جیسے زمین جائیداد ملکیت ہوتی ہے۔ “جملہ حقوق محفوظ” کے الفاظ تو بچپن سے ہر نصابی کتاب پر پڑھتے آئے ہیں تب علم نہیں تھا کہ اس کے معنی کیا ہیں مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ بہت سے افراد کو اب بھی معلوم نہیں ہو سکا۔
گزشتہ کچھ سالوں سے جتنے اشعار علامہ اقبال کے نام سے منسوب کئے گئے ان کا ایک ضخیم مجموعہ چھپ سکتا ہے۔تو پھر لگے ہاتھوں نئے شعری مجموعے کا نام بھی رکھ لیا جائے۔ اس کا بھی کوئی ہیش ٹیگ چلا لیں۔
کچھ دن پہلے ایک اور دکھی کرنے والی پوسٹ نظر سے گزری اس میں شعر تو کوئی نہیں لکھا تھا مگر یہ الفاظ اقبال کے نام اور تصویر کے ساتھ لکھے تھے۔
“یہ ٹمپلٹ آپ کی آسانی کے لئے ہے، یہاں جو منہ میں آئے لکھ کر میرے نام سے شیئر کر دیں”۔۔۔۔ ساتھ ہیش ٹیگ تھا 9 نومبر۔
ارطغرل ڈرامے کی مقبولیت اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ نئے نئے نظریے سامنے آ رہے ان کی دست برد سے علامہ اقبال بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ ایک خاتون یوٹیوبر کا تحقیقی ویڈیو دیکھا جس میں انہوں نے “ثابت” کیا تھا کہ
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
دراصل اس میں لفظ “کئی” نہیں “کائی” ہے۔کائی قبیلے کی بہادری و بےمثالی کے لئے ہی علامہ اقبال نے یہ شعر کہا ہے۔ جو اس کو “کئی ” پڑھتے یا سمجھتے ہیں ان کو غلط فہمی لاحق ہے۔ بھلا بتائیے نوحہ گر کو ساتھ رکھا جائے یا نہیں؟
حاصل کلام یہ کہ اگر سکون صرف قبر میں ہے تو علامہ اقبال کو قبر میں سکون سے رہنے دیں ان پر ایسے اشعار افتراء نہ کئے جائیں ۔ اگر ان سے واقعی محبت عقیدت ہے تو ان کے شعری مجموعے پڑھ لیں۔ وہاں سے بےشمار خوبصورت اشعار آپ کی پوسٹ کو سجانے کو مل جائیں گے۔
۔۔۔۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔