حیا سراسر خیر ہے

انسان میں حیا کا جذبہ فطری ہے، لباس اس حیا کا اولین مظہر ہے ۔دنیا میں آنے والے پہلے جوڑے کو اللہ تعالی نے اپنی جناب سے خلعت بھی عطا فرمائی تھی تاکہ ان کے قابلِ ستر حصے چھپائے جا سکیں۔ممنوعہ شجر کا پھل کھانے پر اللہ کی ناراضی کی بنا پر جب ان کے لباس اتر گئے تو وہ حیا کے سبب جنت کے پتوں سے اپنے ستر ڈھانپنے لگے۔یعنی حیا وہ صفت ہے جو انسان میں اول روز سے پائی جاتی ہے۔

حیا مومن مردوں اور مومن عورتوں کی زینت ہے، اور دین میں حیا کا خاص مقام ہے۔جس میں حیا نہیں اس میں انسانیت نہیں، وہ محض گوشت پوست کا انسان ہے۔اگر اخلاق میں سے حیا کو نکال دیا جائے تو کوئی مہمان کا اکرام نہ کرے، نہ وعدے کو ایفا کرنے کا اہتمام کرے، نہ امانت کی حفاظت کی جائے اور نہ کسی حاجت مند کی حاجت روی کی جائے، اور نہ انسان نیکیوں کے حصول کو چیلنج سمجھ کر قبول کرے، نہ قبیح کاموں سے باز رہنے کی کوشش کرے، نہ اپنے ستر کو ڈھانپنے کا اہتمام کرے، اور نہ فواحش سے رکنے کی کوشش کرے۔ اور اگر حیا کا جذبہ نہ ہو تو بہت سے لوگ فرائض کی ادائیگی کا اس طرح اہتمام ہی نہ کریں۔

حیاء لغوی طور پر ’’حیاۃ‘‘ سے مشتق ہے، اور اس سے مراد ایسی شرمساری ہے جو انسان کو رجوع پر مائل کر دے۔ حیا ایک وقار ہے جو بندہ اختیار کرنا چاہتا ہے تاکہ عیب دار امور سے اپنا دامن دور رکھے۔(لسان العرب، مادہ: (ح ی))

ابن حجرؒ کہتے ہیں: حیاء کو لغۃ میں’’ مد ‘‘کے ساتھ لکھا جاتا ہے، اس سے مراد انکسار یا خوف کی بنا پر عیب دار شے کو ترک کر دینا ہے ۔اور کبھی کسی سبب کی بنا پر کسی شے کو چھوڑ دینا بھی اس میں شامل ہے۔ (یعنی حیاء میں ترک کرنے کا عنصر پایا جاتا ہے، خواہ خوف یا انکسار کی بنا پر ہو یا کسی اور وجہ سے‘‘۔(فتح الباری، ۱۔۵۲)

بارش کو بھی حیاۃ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ زمین ، نباتات اور حیوانات کی زندگی کا سبب بنتی ہے۔اور اسی طرح حیا سے مراد دنیا و آخرت کی زندگی بھی ہے۔ جس میں حیا نہ ہو وہ دنیا کا مردار اور آخرت کا شقی و بد بخت ہے۔وہ گناہوں سے لدا ہوا اور حیا سے عاری ہے، جس کی دنیا بھی برباد اور آخرت بھی! رہا حیا دار شخص، تو وہ گناہ کرتے ہوئے اللہ سے ڈرا، اور نافرمانی سے باز رہا، جب وہ اللہ سے ملاقات کرے گا، اللہ تعالی اسے سزا دینے میں حیا برتے گا۔جس نے بے باکی سے گناہ کئے اور اللہ سے حیا نہ کی اللہ بھی اسے سزا دیتے ہوئے حیا نہ کرے گا۔ (الجواب الکافی، ص۴۶)

ابنِ قیم ؒ کہتے ہیں کہ’’ جس میں حیا نہیںاس میں انسانیت کی رمق نہیں، وہ بس گوشت اور خون سے بنی ایک ظاہری صورت ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی خیر نہیں‘‘۔

الجرجانی کہتے ہیں: حیا کسی عمل کو کرتے ہوئے طبیعت میں انقباض پیدا ہونے کا نام ہے کہ آدمی اس پر ملامت سے ڈرے اور اسے ترک کر دے۔ اور اس کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ نفسانی؛ اور یہ کیفیت اللہ تعالی نے سب انسانوں میں پیدا کی ہے، جیسے ستر کھل جانے کو ہر انسان ناپسند کرتا ہے۔حیا کی یہ قسم انسان کی فطرت اور جبلت میں پائی جاتی ہے۔

۲۔ ایمانی؛ اور یہ کیفیت اسے اللہ کے خوف سے گناہوں کے ارتکاب سے روک دیتی ہے۔حیا کی یہ قسم اکتسابی ہے، یعنی وہ جس قدر شریعت کی پیروی اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کو بڑھائے گا، اسی قدر اس کی حیا بڑھتی چلی جائے گی اور معصیت کے صدور سے بچنے کی کوشش کرے گا۔

اخلاق انسان کے اندر نمو پاتے ہیں، اسی طرح حیا کا مسکن بھی انسان کا وجود ہے۔ایمان اخلاق کی تہذیب اور تزکیہ کرتا ہے، اور جب انسانی وجود میں ایمان پرورش پاتا ہے تو دیگر اخلاق کی مانند جذبہء حیا بھی طاقت ور ہوتا چلا جاتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کئی غیر مسلموں میں بھی حیا کا جذیہ پایا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر انسان میں اس کو ودیعت کیا ہے۔دوسری جانب بعض مسلمانوں میں بھی قلتِ حیا پائی جاتی ہے، تو اس کا تعلق ان کی ایمانی کیفیت سے ہے۔

حیا اور خجل میں فرق

خجل، شرمندگی اور ندامت نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو کسی شک و شبہ میں مبتلا ہونے یا دلیل ِ روشن کے خلاف کرنے پر انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے، اورحیا وہ کیفیت ہے جو کچھ کرنے سے قبل طاری ہوتی ہے۔ خجل اپنے کئے پر ندامت کا احساس ہے اور حیا وہ جذبہ ہے جو کسی برے کام کے انجام دینے میں آڑ بن جائے۔

قرآن کریم میں حیا کا لفظ کئی معانی میں آیا ہے:

۱۔ اللہ تعالی کی حیا کیا ہے؟

’’اللہ تعالی حق بات کہنے سے نہیں شرماتا‘‘۔ (الاحزاب، ۵۳)

’’اللہ تعالی اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے‘‘۔ (البقرۃ، ۲۶)

قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اس کی تأویل یہ ہے کہ اللہ تعالی حق کو بیان کرنے میں کسی خوف کا شکار نہیں ہوتا، اور اور نہ حق کہنے سے کوئی بات اس کو انقباض میں مبتلا کرتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ ایک روز مسجد میںاپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے تھے، کہ تین لوگ اندر آئے، دو رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آ گئے اور ایک واپس چلا گیا، اور سلام کیا۔ ایک کو حلقے میں جگہ ملی تو وہ اس میں بیٹھ گیا، اور دوسرا (حلقے سے باہر) ان کے پیچھے بیٹھ گیا، جبکہ تیسرا شخص واپس چلا گیا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ فارغ ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ان تین کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ان میں سے ایک نے اللہ سے ٹھکانا مانگا تو اللہ نے اسے ٹھکانا فراہم کر دیا، (یعنی مجلس میں جگہ)، دوسرے نے اللہ سے حیا برتی تو اللہ نے بھی اس سے حیا برتی، اور آخری نے اللہ سے اعراض کیا تواللہ نے بھی اس سے اعراض کیا۔ (رواہ الترمذی، ۲۷۲۴)

ان میں سے پہلا شخص طالب علم تھا اور اس کی نیت میں خلوص تھا، تو اسے رسول اللہ ﷺ کی مجلس کے حلقے میں جگہ دی گئی، کیونکہ وہ اللہ سے اسی کا امیدوار تھا، دوسرا حیا دار تھا، وہ اس نے فقط علم حاصل کرنے سے غرض رکھی اور ازدحام سے بچنے کی کوشش کی، لیکن تعلم اور صحبتِ علما چاہی تو اللہ نے اس کی حیا کی بھی قدر کی اور اسے علم حاصل کرنے کا موقع دے دیا، اور جس نے علم اور اصحابِ علم کی مجلس میں پہنچ کر بھی ان سے اعراض کیا تو اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا۔ اس میں حیا کو پسند کیا گیا ہے اور اعراض کو اللہ کی ناراضی کی علامت بیان کیا گیا ہے۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی حیادار اور کریم ہے، جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے خالی ہاتھ نامراد واپس لوٹاتے ہوئے اسے شرم آتی ہے‘‘۔(رواہ ابن ماجہ، ۳۱۳۱) اور اللہ تعالی کی حیا بندوں کی مانند نہیں ہے، جو انکسار پر مبنی ہوتی ہے، بلکہ اس کی حیا بھی اس کے جلال اور عظمت کی شان جیسی ہے، جب بندہ اس کی نافرمانی کرتا ہے تو بھی وہ اپنی بے پناہ رحمت اور کمال جودو کرم اور عظیم در گزر کے ساتھ اسے ڈھانپ لیتا ہے، اور اس کے عیب کی پردہ پوشی کر دیتا ہے، اور اس کے گناہ کا پردہ چاک نہیں کرتا۔ ابن قیم ؒ اپنے نونیہ قصیدے میں کہتے ہیں:

وہ حیا دار ہے، اپنے بندے کی فضیحت نہیں کرتا ۔۔جب وہ علانیہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے

وہ تو اس پر پردہ ڈال دیتا ہے ۔۔وہ ہے ہی پردہ پوش اور مغفرت فرمانے والا

۲۔ حیاء دارانہ رویہ

قرآن کریم میں موسی ؑ کے قصے میں شیخ مدین کی بیٹی کی حیا کو اس طرح بیان کیا گیا:

’’پھر ان میں ایک حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی‘‘۔ (القصص، ۲۵)

اور یہ وہی حیا ہے جو عورت کی زینت ہے، اور اس کی عفت، اسکے شرف اور فضل کی دلیل ہے۔

حیا فطری جذبہ ہے

حیا مرد و خواتین دونوں میں اللہ تعالی نے فطری طور پر رکھی ہے، اور اس کا پہلا اظہار آدم و حواؑ کے زمین پر آنے سے قبل ہوا تھا، جب ان دونوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا تو اللہ تعالی کی جانب سے عطا کئے گئے لباس سے ان دونوں کو محروم کر دیا گیا، ان کی کیفیت کو قرآن کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے:

’’پھر جب انہوں نے اس درخت کا پھل چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے‘‘۔ (الاعراف، ۲۲)

یعنی شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقاء سے مصنوعی طور پر پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ یہ اکتسابی چیز ہے، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اول روز سے انسان میں موجود تھی۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص۱۵)

ٖحیا ایمان سے ہے

حیا ایک ایمانی جذبہ ہے، اس کی افزائش کرنا چاہیے نہ کہ اسے دبایا جائے، حدیث میں ہے:

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک انصاری کے پاس سے گزرے، جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا (کہ زیادہ شرم و حیا نہ کر)تو رسول اللہﷺ نے اس سے فرمایا: اسے چھوڑ دو، حیا تو ایمان کا حصّہ ہے‘‘۔ (متفق علیہ)

ابو مسعود عقبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کے پاس کلامِ نبوت سے جو بات پہنچی ہے ان میں یہ بھی ہے: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘‘۔ (رواہ البخاری، ۳۴۸۳)

کلام نبوت سے مراد پہلے انبیاؑ کے احکامِ شریعت ہیں، جو منسوخ نہیں ہوئے، اور ہر آنے والے نبی نے ان کی تجدید کی ہے، ان میں حیا بھی ہے، اس کا حکم آج بھی ثابت ہے، اور پچھلی نبوتوں میں بھی اس کی تاکید کی گئی تھی۔

جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کر، کا بیان تہدیدی ہے۔ یعنی یہ ایسا عمل نہیں جس سے معافی ملے ، اب تو مستحقِ سزا ہے۔ حیا کا جذبہ ہی برے فعل کے ارتکاب میں رکاوٹ بنتا ہے۔ جب اس رکاوٹ کو تو نے ہٹا دیا تو اب جو چاہے کر، تجھے سزا مل کر رہے گی۔

حیا سراسر خیر ہے

حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’حیا خیر ہی لاتی ہے‘‘۔ (رواہ البخاری) اور مسلم میں ہے: ’’حیا سراسر خیر ہے‘‘۔ یعنی حیا انسان کو اللہ کی نافرمانی ، بد اخلافی اور برے کاموں سے بچاتی ہے۔معاشرے میں برائیاں کم ہو جائیں تو پاکیزہ فضا نشونما پاتی ہے، جس میں برائی سکڑنے لگتی ہے، اور برے لوگ اعلانیہ برائیوں کا ارتکاب نہیں کرتے، نیکی کا چلن عام ہو جاتا ہے، ہر جانب حیا کا خیر پھیل جاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں، (یا ساٹھ سے زائد، راوی کو شک ہے)، ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے ادنی راستے میں پڑی ہوئی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ (متفق علیہ)

حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فحش جس چیز میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتا ہے، اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت عطا کرتی ہے‘‘۔ (رواہ ابن ماجہ، الترمذی واحمد)

رسول اللہ ﷺ نے اشجع بن عبد القیس کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس میں دو صفات ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالی پسند فرماتا ہے: حلم اور حیا‘‘۔

رسول اللہ ﷺ کی حیا

رسول کریم ﷺ اخلاق کی بہترین حالت پر تھے، اسی لئے آپؐ کی حیا بھی مثالی تھی۔

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ’’رسول اللہ ﷺ پردے میں رہنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ باحیا تھے‘‘۔ (رواہ البخاری، ۳۵۶۲)

یعنی ایک تو کنواری لڑکی کی حیا اور اس پر مستزاد اس کی باپردہ حالت حیا کی شدت کو ظاہر کرتی ہے، آپؐ اس سے بھی زیادہ حیادار تھے۔اور اگر آپ کو کوئی بات بری محسوس ہوتی تو اس کا اثر آپؐ کے چہرہ مبارک پر آجاتا اور وہ سرخ ہو جاتا، کیونکہ آپؐ کا چہرہ مبارک دل کا سچا آئینہ تھا۔

صحیح بخاری میں رسول کریم ﷺ کے سفرِمعراج کی حدیث تفصیل سے آئی ہے، جب رسول کریمﷺ کو پچاس نمازوں کا تحفہ ملا، اور واپسی کے سفر میں حضرت موسیؑ نے اس تعداد کو کم کروانے کا مشورہ دیا، اور پیارے نبیؐ بار بار اللہ کے حضور اس کی تخفیف کی درخواست کرتے رہے، اور پانچ کی تعداد کو بھی کم کروانے کے مشورے پر نبی اکرمؐ نے فرمایا: (استحییت من ربی)، ’’مجھے اپنے رب سے حیا آگئی‘‘۔(رواہ مسلم)

امہات المؤمنین حضرت زینبؓ کے ولیمہ کی دعوت کھانے کے بعد کچھ لوگ جم کر آپؐ کے گھر بیٹھ رہے ، اور نبی کریمؐ کو ان کے عمل سے تکلیف پہنچی مگر حیا کے سبب آپؐ نے انہیں جانے کو نہ کہا، تو اللہ تعالی نے قرآن کریم میںان کو تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’تمہاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتا، اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا‘‘۔ (الاحزاب، ۵۳)

بہترین حیا اللہ سے حیا ہے

بندہ جب اللہ تعالی کے عائد کردہ فرائض کی پرواہ نہ کرے، وہ غفلت کے ساتھ اس کے احکامات کو پیروں تلے روند دے، اور شریعت کی پابندیوں کو خاطر میں نہ لائے تو یہ اللہ تعالی جل جلالہ سے عدم حیا کی علامت ہے۔ اللہ تعالی سے حیا نہ کرنے کے معاملے میں انسانوں کا یہ رویہ افسوسناک ہے کہ وہ لوگوں سے تو بڑے اخلاق اور رکھ رکھاؤ سے ملیں اور ان کے سامنے کسی گناہ کا ارتکاب نہ کریں، لیکن جب وہ تنہائی میں ہوں تو اللہ سے حیا نہ کریں اور تمام پابندیوں اور حدود قیود کو توڑ دیں، گویا انہیں اللہ سے ذرا بھی حیا نہیں آتی۔

حضرت سعید بن یزید الازدیؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے کہا: مجھے وصیت کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالی سے اسی طرح حیا کرو جس طرح تم ایک صالح شخص سے حیا کرتے ہو‘‘۔ (رواہ احمد، فی الزھد، ۴۶)

ابن ِ جریرؒ کہتے ہیں کہ یہ مختصر الفاظ میں بہت بلیغ نصیحت ہے، کیونکہ فاسق شخص بھی اپنی مصلح افراد سے حیا کرتا ہے اور ان کے سامنے برائی کا ارتکاب نہیں کرتا، اور اللہ تو اپنی مخلوق کے تمام افعال سے باخبر ہے، تو بندہ جب اپنے رب سے حیا برتے اور اپنی قوم کے صلحاء اور نیک لوگوں سے بھی حیا کرے تو وہ تمام ظاہری اور باطنی معاصی سے اجتناب کرے گا۔ تو یہ نصیحت کتنی عمدہ اور جامع ہے۔(دیکھئے: فیض القدیر، ۷۴۔۳)

معصیت حیا کو ختم کر دیتی ہے

ابن القیمؒ کہتے ہیں کہ : ’’گناہوں کی سزا یہ بھی ہے کہ وہ حیا کو ختم کر دیتے ہیں، جو کہ حیاتِ قلب ہے۔اور وہ ہر خیر کی اصل ہے، اور حیا کا رخصت ہو جانا خیر کا چلے جانا ہے، کیونکہ حیا تو سراسر خیر ہے‘‘۔ (الداء والدواء، ص۱۳۱)

حضرت عمربن خطاب ؓ کا قول ہے: ’’جس میں حیا کی کمی ہو اس کی پرہیز گاری کم ہو جاتی ہے،اور جس کاپرہیز گاری کم ہو جائے اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے‘‘۔

دنیا میں کوئی معاشرہ بھی فحاشی، منکرات اور ظلم پر قائم نہیں رہ سکتا۔ جس معاشرے میں حیا نہ ہو وہ اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے، اور اس میں خیر پنپ نہیں سکتی۔

حیا کے مظہر

حیا انسان کے عقل مند و دانا ہونے کی علامت ہے۔اسکا اظہار گفتگو میں بھی ہوتا ہے اور پوشاک میں بھی، برتاؤ میں بھی اور رویے میں بھی!

۱۔ کلام

غیر معیاری الفاظ، دروغ گوئی، گمراہ کن انداز اور احترام سے عاری کلام حیا کے منافی ہے۔ حیا کسی بھی شخص کو نرمی اور حکمت کے ساتھ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر سے باز نہیں رکھتی۔تین چیزیں دل میں حیا کے احساس کو متحرک کرتی ہیں:

۱۔ اللہ تعالی کی تعظیم اور اس سے محبت

۲۔ یہ احساس کہ ہم اللہ کی نگاہ میں ہیں اور وہ سمیع و بصیر رب ہمیں سن اور دیکھ رہا ہے۔

۳۔ اللہ تعالی سے کوئی بھی چیز اوجھل نہیں ہوتی۔

۲۔ رویہ

حیا کا اعلی درجہ یہ ہے کہ آدمی حیادارانہ رویہ اختیار کرے اور اپنے آپ سے بھی حیا کرے، اور ان فرشتوں سے بھی جو اس کے ساتھ رہتے ہیں۔اللہ تعالی سے حیا اختیار کرنا بہترین رویہ ہے، جو اللہ سے حیا کرتا ہے اللہ بھی اس سے حیا برتتا ہے۔

حیا کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ کسی مسئلے کو پوچھنے میں حیا کر ے۔حضرت عائشہؓ کہتی ہیں: ’’انصار کی خواتین بہترین عورتیں ہیں،وہ دین سیکھنے میںحیا کو رکاوٹ نہیں بناتیں‘‘۔ (مسلم)

مجاہدؒ کا قول ہے: ’’حیا اور تکبر کرنے والا کبھی علم حاصل نہیں کر سکتے‘‘۔ (دینی معاملات میں سوال کرنے سے حیا کرنا علم کے حصول میں مانع ہو جاتا ہے۔)

حسن بصری ؒکہتے ہیں: ’’حیا اور فیاضی دو ایسی خصلتیں ہیں کہ جس میں بھی پیدا ہو جائیں اللہ تعالی اسے سربلند کر دیتا ہے‘‘۔(مکارمِ الاخلاق، ابن ابی الدنیا)

جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں: ’’اللہ کی نعمتوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنی خطاؤں پر نظر پڑے تو جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اسے حیا کہتے ہیں‘‘۔

بنی اسرائیل کے ایک سمجھدار شخص کا قول ہے: ’’عورت کی زینت حیا ہے اور حکیم کی زینت خاموشی ہے‘‘۔ (ابنِ ابی الدنیا، ۶۳)

حیا کثیر الفوائد صفت ہے۔ حیا ایمانی صفت ہے، یہ ایمان کو تقویت دیتی ہے۔حیا اور ایمان باہم و لازم و ملزوم ہیں۔ حیا بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے بچاتی ہے، اس طرح یہ مومن کی زندگی میں ایک ڈھال کا کام کرتی ہے۔ حیا دار شخص دنیا اور آخرت کی رسوائی سے بچ جاتا ہے۔حیا ایمان کی ایک مضبوط شاخ ہے، جو اللہ سے حیا برتے وہ دنیا میں بھی اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اور آخرت میں بھی کرے گا۔حیا دار شخص کو لوگ بھی پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی بھی۔ حیا فواحش کے افشا سے روکتی ہے، اور کیچڑ میں گرے ہوئے شخص کی پردہ پوشی کر کے اسے اصلاح کا موقع دیتی ہے۔ (الاخلاق الاسلامیہ، المیدانی)

حیا کا اعلی درجہ یہ ہے کہ وہ اچھے کاموں پر ابھارے اور برے کام کرنے سے روک دے۔

جس شخص کو اللہ کی جانب سے حیاکا تحفہ ملا، وہ کمال اس کی پوری زندگی پر حاوی ہو گیا۔انسان حیا کے احساس میں مختلف درجات پر ہوتے ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ آج کے زمانے میں حیا کی کمی پر شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔بازاروں میں بے حیائی عام ہے، شادی بیاہ کے مواقع ہوں یا سیر و تفریح کے مقامات، یا ہمارے تعلیمی اداروں میں نوجوان نسل کے لباس اور میل ملاقات، ہر جانب برے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب تبدیلی ایک دن میں وقوع پزیر نہیں ہوئی، بلکہ مرحلہ وار آئی ہے۔ جوں جوں انسان کی اخلاقی حس کمزور پڑتی چلی جاتی ہے، شرم و حیا، غیرت اور حمیت مفقود ہوتی چلی جاتی ہے۔با حیا اور با حجاب زندگی چھوڑ دینے کے بعد انسانی رشتوں میں بھی بے حیائی در آتی ہے، وہ معاشرے جن میں حیا کا اعلی تصور رائج نہیں ہے، وہاں نکاح ایک غیر ضروری قید کا تصور لے کر آیا ہے۔

جس معاشرے میں حیا داری نہیں رہتی وہاں فواحش پھیلنے لگتے ہیں۔اور انسانی جذبات کو انگیخت کرنے کے لئے ادب، آرٹ، سینما، موسیقی اور رقص کے ذریعے برہنگی و بے حیائی کے مناظر عام ہو جاتے ہیں، گویا شیطان اپنے سارے لاؤ لشکر سمیت اس معاشرے پر حملہ کر دیتا ہے۔ان حرکتوں پر یہی بات صادق آتی ہے کہ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔ایک بے حیا معاشرہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے ہوئے لوگ! نجانے کس وقت بے حیائی کی آگ انہیں جلا کر خاکستر کر دے۔

خاندانی نظام اور نکاح کے ذریعے تعلقات کا فروغ حیا کو قائم رکھتا ہے اور اس دائرے سے باہر ہر تعلق یا تو زنا ہے یا مقدماتِ زنا میں سے ہے۔ (یعنی ایسی پیش قدمی جس کی انتہا زنا یا اس سے کم برائی پر منتج ہوتی ہے۔)فحش لٹریچر، ویڈیوز اور چلتے پھرتے بے حیا مردو زن معاشرے کے بگاڑ میں بڑے ذمہ دار ہیں۔

انسان اور خصوصاً عورت میں حیا کا جو مادہ رکھا گیا ہے اس کا اظہار لباس سے بھی ہوتا ہے اور طرزِ معاشرت سے بھی، اگرچہ مادہ پرست معاشروں میں اسی لغزش نے قوموں کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے۔سترِ عورت اور حیا داری محض عادت نہیں بلکہ مطلوب اخلاقی رویہ ہے۔

اے بنی آدم ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا، تاکہ تمہارے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے‘‘۔ (الاعراف، ۲۶) اور پھر خواتین کو یہ بھی فرمایا: ’’اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں‘‘۔ (الاحزاب، ۵۹) نظام حیا کو قائم کرنے کے اصول وضع کئے: ’’اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘‘۔ (الاحزاب،۳۳)اور جب صنف ِ مخالف سے معاملہ ہو تو پردے کے پیچھے سے کیا جائے، اور’’ دبی زبان میں گفتگو نہ کرے، تاکہ دل کی خرابی میں مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے‘‘۔(الاحزاب، ۳۲) اسلام میں نکاح کو عفت مآبی اور حیا قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں نکاح کرنا چاہیے کیونکہ وہ آنکھوں کو بدنظری سے روکنے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کی بہترین تدبیر ہے‘‘۔ (رواہ الترمذی)اس طرح اسلامی معاشرت وہ پاکیزہ، محفوظ اور پرسکون فضا فراہم کرتی ہے، جس میں حیا کو قائم رکھتے ہوئے تعمیر ِ تمدن میں معاشرے کا ہر فرد فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔

٭٭٭

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔