محفل سے صحبت ہوتی ہے اور عادتیں صحبت کا اثر ۔ دوستی کاتعلق محفل سے اور صحبت سے ہے۔میرے نزدیک دوست دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک جاننے والے دوسرے پہچاننے والے۔
جاننے کا رشتہ صرف آپ کے ظاہر سے ہے جبکہ پہچاننے والے کا رشتہ آپ کے ظاہر اور باطن دونوں سے ہے۔جاننا بھی اہم ہے لیکن پہچاننا زیادہ اہم ہے۔ جو جان کر بھی پہچان نہ سکا اس کی قسمت پر روئیں۔ جاننے میں دیر نہیں لگتی۔دیر لگتی ہے تو پہچاننے میں۔جاننا سطح کا علم ہے جبکہ پہچاننا تہہ کا علم،گہرائی کا علم۔
دوستی نام ہی سکھ ،دکھ میں شامل ہونے کا ہے۔ دوستی نام ہے سود و ز یاں میں شامل ہونے کا دوستی نام ہے احساس کا ۔ دوستی نام ہے نبھانے کا۔ دوستی نام ہے کسی کا مشکل وقت میں ہاتھ تھام لینے کا،دوستی نام ہے پہچاننے کا۔ دوستی نام ہے دل کا بھید جان لینے کا، بھید جان لینا،بھید کی کھوج لگانا اور بھید پا لینے کا تعلق جاننے سے نہیں پہچاننے سے ہے۔
اب بات چاہے مذہب کی ہو یا دنیاداری کی۔ کسی شے کو پہچاننا لازم و ملزوم ہے۔جاننے اور پہچاننے کی جستجو بھی بہت پرانی ہے اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تاریخ۔جاننے اور پہچاننے کا سفر بہت ہی دشوار ہے۔ یہاں بڑے بڑے ہار مان گئے یہاں بڑے بڑے شکست کھا گئے۔ یہاں بڑے بڑے حوصلہ ہار گئے۔
انسانی زندگی کی گھڑی نے وقت بدلا اور دُور کے انسان کو انسان سے قریب کرنے کی کوشش کی اور کامیابی ملی۔ ہزاروں میل دور سمندر پار بیٹھے جاننے والے یا پھر کسی اجنبی سے رابطہ ممکن ہوگیا۔
یہ سب سائنس کی مرہون منت ہے۔ہاتھ میں چھوٹا سا موبائل لیے بیٹھا شخص ساری دنیا سے ایک کلک کے فاصلے پر بیٹھا ہے۔ واقع ہی یہ بیٹھا ہوا ہے، یہ دنیا کی سیر و تفریح تو کر سکتا ہے لیکن نظارہ نہیں کر سکتا۔ یہ بات چیت تو کر سکتا ہے لیکن احساس نہیں پہچان سکتا۔
جدید دور کے جدید انسان کا جدید مسئلہ انسانوں کو باہم ایک پلیٹ فارم پر لا کر گفت وشنید کا موقع فراہم کرنا تھا یہ مسئلہ سوشل میڈیا کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔ ہزاروں میل دور بیٹھا شخص چند سکینڈز میں اپنا پیغام پوری دنیا میں پہنچا سکتاہے۔صرف چند سیکنڈ میں اتنی بڑی تبدیلی۔
جہاں سوشل میڈیا نے اتنا بڑا مسئلہ حل کر دیا وہاں ہمارے تعلقات کو دیمک بھی لگ گئی۔ دوست کے دوست نہ رہے بلکہ سوشل میڈیا فرینڈز کہلوانے لگے، محفل اور صحبت نہ رہی بلکہ سوشل میڈیا گروپ بن گئے۔ جہاں دنیا کی نزدیکیاں بڑھیں وہاں قریب بیٹھا شخص ہزاروں میل دور ہو گیا۔خود کے لیے وقت نکالنا مشکل ہے لیکن سوشل میڈیا پر گھنٹوں وقت دینے کے لیے تیار ہیں۔
سماجی روابط ویب سائٹ والے دوستوں کو اپنا دکھ درد اور سکھ باٹنے کے لیے ہر لمحہ تیار ہیں لیکن اپنے بہن ،بھائیوں کو اپنا محرم راز بنانے کو تیار نہیں، ان کا رویہ درست نہیں اس کے برعکس ہمیں سوشل میڈیا پر سارے فرشتے نظر آتے ہیں۔باتیں کرنے میں سب سے آگے عمل کرنے میں سب سے پیچھے۔کہا جائے تو معصومانہ سا جواب ہوتا ہے ”عمل میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے“