محافظ سرحدوں کی حفاظت میں معمور ہو یا شہر میں شہریوں کی دونوں ہی ہمارے لیے قابل احترام ہے، سرحدوں پر دشمن کے مقابل ڈٹے ہوئے فوجی جوان ہو یا شہر میں جرائم کے خلاف ڈٹاہوا پولیس کا جانباز جوان، وطنِ عزیز کے لئے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، گزشتہ 72 سالوں میں افواج پاکستان کو جوکامرانی و کامیابی عطاہوئی ہوئی وہ اظہر من الشمس ہے۔ پاک فوج کے جوانوں نے اپنی محنت و لگن اور نظم وضبط سے دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا،آج پاکستان کے سب سے منظم اور طاقتور ادارہ کے طور پر پہچانا جاتا ہے، دوسری جانب عدم توجہی کی وجہ سے ہمارے ملک کے محکمۂ پولیس میں نظم و ضبط کا شدید فقدان ہے، محکمۂ کی زبوں حالی زبان زد عام ہے، افواج پاکستان کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کے ہر شہری محسوس کرتے ہیں ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے اور ہم محفوظ ہیں دوسری جانب پولیس کی غیرمعیاری پرفارمنس کی وجہ سے ہر شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں ، یقینا محکمۂ پولیس کسی بھی ترقی یافتہ پرامن معاشرہ کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں، اس شعبے کی قیام کا مقصد معاشرے کو بدعنوانی، جرائم، وحشت سے پاک صاف وشفاف ماحول فراہم کرنا ہے، جہاں شہریوں کا مال و متاع جان، عزت و آبرو اور اس کا تشخص محفوظ ہو، مگر بدقسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہے ، سانحۂ ساہیوال و نقیب اللہ محسود جیسے درجنوں واقعات پولیس محکمہ کے لیے لمحہ فکر ہے، آج تو ہم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ آیا ہماری پولیس محافظ ہے یا رہزن ۔۔۔۔
حال ہی میں پولیس محکمہ سے جڑی اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ بفرزون میں پیش آیا کہ مورخہ 25اکتوبر2020ء کوصبح صادق کے وقت تقریباََ 04:10 بجے چند پولیس اہلکار جس میں ایک خاتون اہلکار بھی شامل تھی بغیرکسی وارنٹ کے ایک شہری کے گھر میں داخل ہوئے اور پھر گھر کے مرد عورت اور بچوں کو ہراساں کرکے کمرے میں بند کردیا پہلے پہل تو گھر والوں سے اسلحہ طلب کیا، گھر والوں کے منع کرنے پر پولیس اہلکاروں نے گھر والوں کوایک کمرے میں بند کرکے گھر کی تلاشی لی ، گھر میں موجود لاکھوں روپے کیش ، لاکھوں روپے مالیت کے طلائی زیورات لوٹ کے فرار ہوگئے، حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس اہلکار پولیس وردی میں تھے جو ایک نئی پولیس موبائل وین میں آئے تھے پر اتفاق سے پولیس موبائل وین کی نمبر پلیٹ نہیں تھی، اور اب خود علاقائی پولیس ورطہ حیرت میں ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے،(اب وہ احتجاج کرے یا تحقیق؟) آج ایک ہفتہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کو ہے پر ہمارا محکمۂ یہ معلوم کرنے سے قاصرہے کہ یہ اہلکار کون سے تھانے کے تھے، ناتحقیق نا تفتیش، کیا یہ کوئی ایسا واقعہ ہے جس سے چشم پوشی کی جائے، کیا اس قسم کے واقعات خود محکمۂ پولیس کی ساکھ کے لیے نقصان دہ نہیں ہے،
پولیس کی وردی میں موجود راہزنوں نے محکمۂ پولیس کو متنازع بنادیا ہے، حال ہی میں مفتی عبداللہ پر قاتلانہ حملے کے بعدپکڑے جانے والے مجرم کے موبائل فون سے معلوم ہوا کہ مجرم مفتی عبداللہ کو ٹارگٹ کرنے سے پہلے علاقے کے ایس ایچ او سے مکمل رابطے میں تھے، اس ہوشرباانکشاف نے عوام اور خواص سبھی کو پریشانی میں مبتلا کردیا کہ عوام کی حفاظت میں معمور محکمہ کے ذمہ دار اہلکار اگر ملک میں فسادات برپا کرنے والے قاتلوں کے دست راست اور سہولت کار ہے تو عوام کس کے رحم و کرم پر ہیں،اور شہر میں کیسے امن قائم ہوسکتا ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے امن، سکون و راحت کی سب سے بڑی وجہ مضبوط اور مستحکم محکمۂ پولیس کا نظام ہے، وہ اندرونِ شہر کے جرائم اور بدعنوانیوں کو ختم کرنے اور شہریوں کو امن و سلامتی پر مبنی معاشرے کے قیام کو یقینی بناتے ہیں یہی محکمے کی وجہ امتیازبھی ہے، ترکی جس کی مثالیں دیتے ہمارے حکمران نہیں تھکتے، انکے صدر رجب طیب ایردوان نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر پولیس محکمۂ کی ناصرف اصلاح کی بلکہ ہرقسم کی جدید سہولیات سے آراستہ کیا، شہریوں کو امن و امان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بااختیار ادارہ بنایا( آج کے ترکی کی پر امن فضا کا ضامن پولیس محکمۂ کو ہی گردانا جاتا ہے) دوسری جانب ہماری پولیس بہتر سالوں میں یہ تاثر دینے سے قاصر ہے کہ پولیس محکمۂ شہریوں کا ہمدرد، مددگار اور محافظ ہے، بلکہ محکمۂ کے افسران و اہلکار اپنے حرکات و سکنات و غیرمہذبانہ کردار اور ناشائشتہ گفتگو کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں مثبت سوچ پیدا کرنے میں مکمل ناکام رہے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس عظیم محکمہ نے عام شہریوں کے بجائے طاقتور طبقے کی خدمت کو ترجیح دی، قانون صرف کمزور، ناتواں، غریب و مفلس کے خلاف ایکشن میں نظر آتاہے محکمہ پولیس میں موجود نااہل کرپٹ افسران نے محکمہ کی عزت و وقار کو مجروح کیا ہے، آج ملک میں بڑھتی ہوئی جرائم کی ایک بڑی وجہ پولیس کی غیرمنصفانہ تفتیش بھی ہے یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ نظام تفتیش نظام عدل کی روح ہے نظام تفتیش کو موثر بناکربلاتاخیر فیصلوں سے جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے، ہمارے ملک میں کسی بھی نوعیت کے مجرموں کا سزا سے بچنے کی اہم وجہ استغاثہ کی کمزوری ہے تفتیشی افسران انہماک اور دل جمعی کے ساتھ تفتیش نہیں کرتے بلکہ تفتیش کو اپنا کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں افسران کی ناقص طریقہ تفتیش، رشوت خوری اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے مجرمان مکھن سے بال کی طرح قانون کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں، اہلِ اقتدار نے کبھی بھی پولیس محکمہ کی اصلاح کی مثبت کوشش نہیں کی اور نا ہی کبھی اس ادارے کو عوام دوست ادارہ بنانے کے لیے کوئی پیش رفت ہوئی، بلکہ اس ادارے کو ہمیشہ اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے لئے استعمال کیا اپنے سیاسی مخالفین کو زیرِعتاب لانے کے لیے استعمال کیا اور ہمارے ادارے بھی ان طاقتور کرداروں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے رہے، ملک کی ترقی خوشحالی اور امن کی کی بحالی کیلئے سیاسی دباؤ سے پاک محکمہ پولیس کی اشد ضرورت ہے ،محکمہ کے اصلاح کی ساتھ جدید سہولیات سے آراستہ کرنا حکومت کی اہم ترین ذمہ داری ہے پولیس کی ساکھ کو بہتر کرنے کے لیے پولیس وردی میں موجود کالی بھیڑوں کا سدباب پولیس کی اہم ترین ذمہ داری ہے، مزید یہ کہ نوجوان پولیس اہلکار کی تربیت و اصلاح کا خاص انتظام کیاجائے ان کی اخلاقیات پر خصوصی توجہ دی جائے انہیں یہ بات باور کرائی جائے کہ آپ جس ملک کے سپاہی ہے یہ شہری اسی ملک کے باشندے ہیں آئینی و اخلاقی تقاضہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی قدر کریں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ کرپٹ اور رشوت خور افسران کی حوصلہ شکنی ہو اور ایماندار افسران کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہو اس کے لیے صرف تقاریر اور بیانات کافی نہیں بلکہ حکمران اور اعلیٰ افسران عملی اقدامات کریں،تاکہ محافظ اور راہزن کا فرق واضح ہو۔