فرانس کی حرکتوں پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ مگر ذرا توجہ ہمالیہ سے اونچے محبت کے دعووں پر بھی ہو۔ خبر ہے کہ چین کے سرکاری چینل (CCTV( china central television چینل ایک ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے.جس کا نام ہے – Carol of Zhenguan۔ یہ ڈرامہ ان کی قدیم تاریخ پر بنایا گیا ہے۔ اس میں zhenguan کے دور کے واقعات دکھائے گئے ہیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے،مگر اسی ڈرامے میں ایک منظر ہے جس میں مسلمان عرب سفیر بادشاہ کو ایک تصویر تحفے میں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ :
یہ ہمارے عرب کے خدا کی تصویر ہے۔۔۔۔ استغفر اللہ
چین نے تاحال اس کی تصدیق و تردید میں کچھ بھی نہیں کہا ۔ پہلے ہی ساری دنیا کے مسلمان فرانس کی نیچ حرکت پر سیخ پا ہیں اور فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ جس پر فرانس بلبلا اٹھا ہے۔ چین نے بھی ایسی حرکت کی ہے۔ مسلمان اور دین اسلام پر زبان درازوں کی زبانیں نکل رہی ہیں۔ اور مسلمان بے بس دکھائی دے رہے ہیں، کیوں؟ مسلمان تعداد میں تو بہت ہیں مگر سمندر کی جھاگ کی مانند ہیں۔ جن کا کوئی رعب و دبدبہ نہیں رہا۔ جب سے ہم نے مشرکوں اور کافروں سے امیدیں وابستہ کر لیں تو حال تو یہی ہونا ہے۔ جبکہ ہمارا دین ہمیں واضح طور پر بتاتا ہے کہ کفار مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ یہ کافر مسلمانوں کے خلاف ایک ملت واحد ہیں۔ مگر ہم ابھی تک کم کافر اور زیادہ کافر کے چکر میں پڑے ہیں۔ جہاں دل چاہتا ہے وہاں خود ہی گنجائش نکال لیتے ہیں۔ آج ہمارے ممالک میں اسلامی آئین و قانون نافذ نہیں اور نا ہی اسکی کوشش ہے۔ البتہ ربیع الاول میں ہم نے تمام شہر روشنیوں سے سجا کر حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ کیک بنایا گیا کاٹا گیا،البتہ یہ احتیاط ضرور کی گئی کہ اس تقریب کو سبز تھیم دیا جائے اور کیک بھی اسی مناسبت سے ہرا ہو۔ گنبد خضری بھی ہو اس پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کندہ ہو۔ تاکہ پتا چلے کہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ حالانکہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں غیر مسلموں سے مشابہت سے منع فرمایا ہے۔ مگر احتجاج ہے تو فقط کفار کی رذیل حرکتوں پر (اور ضرور ہونا چاہیئے)، یہ احساس ہی نہیں کہ ہم خود کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے کن کے طریقے کو چھوڑا اور کس کا طریقہ اپنا لیا ہے؟
کون ہے تارکِ آئینِ رسُولِ مختارؐ؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
ہمارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بڑھ کر کوئی نہیں حتی کہ ہمارے والدین اور اولاد بھی نہیں۔ تو مسئلہ صرف مصنوعات کے بائیکاٹ سے حل نہیں ہو گا۔ اپنی اداؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ محبت کے صرف دعوے نہ ہوں بلکہ عمل سے ثابت بھی کریں۔ بھولی بسری سنتوں کو پھر سے تازہ کریں۔