روزِ اول سے ہی ہم نے ذہنی خلل کو آسیب ،سزا اور پاگل پن سے منسوب کیا ہے۔بات اگر ماضی کی ہو تو ذہنی مرض میں مبتلا شخص کو مذہب سے دوری یا پھر کسی آسیبی یا شیطانی سائے کے زیر اثر سمجھا جاتا تھا۔جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی گئی یہ بات واضح ہوتی گئی کہ جیسے انسان کسی جسمانی مرض کا شکار ہو سکتا ہے بلکل ویسے ہی دماغی طور پر بھی کسی بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔مگر افسوس کہ یہ بات تسلیم کر لینے کے باوجود بھی دورِ حاضر میں ان امراض کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔اقدامِ خود کشی کے واقعات میں حد درجہ اضافہ ہورہا ہے ۔آخراسکی وجہ کیا ہے؟
سب سے پہلے تو وہ شخص جو کسی ذہنی الجھن کا شکار ہے یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ اسے کسی ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے پھر وہ چند لوگ جو اس بات کو مان لیتے ہیں اور با قاعدہ علاج کرواتے ہیں انکو بھی یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ یہ بات کسی کے علم میں نہ آجائے اور اس طرح انسان کے گرد اسکا حلقہ احباب محدود ہوتا جاتا ہے وہ اپنی پریشانیوں اور الجھنوں کا ذکر ہر ایک سے نہیں کر سکتا جس کی بنا پر وہ تنہائی کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔بظاہر ہنستے مسکراتے خوش نظر آنے والے لوگ نہ جانے اپنے اندر کتنی بڑی بڑی جنگیں لڑ رہے ہوتے ہیں ،ایسی جنگیں جہاں انسان اپنے دشمن کا تعین ہی نہیں کر پاتا۔آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟
بظاہر اس دنیا نے بہت ترقی کر لی ہے لیکن پھر بھی ہماری سوچیں انہی فرسودہ باتوں کے گرد گھومتی ہیں ۔نفسیاتی مرض میں مبتلا شخص کو آج بھی پاگل کہا جاتا ہے۔اس بات کی حمایت کر لینے کے باوجود ہم نے آج تک اس بات کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اس خوف کو معاشرے سے ختم کرنے میں نہ کام ہوگئے جسکے نتیجہ میں روز کوئی نہ کوئی خود سوزی کا واقعہ سننے کو مل جاتاہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے حلقہ احباب میں موجود لوگوں کی ذہنی الجھن کو سمجھا جائے ۔ان کی بات کو غور سے سنا جائےاور بجائے کسی کا تمسخر بنانے کے اس کی مدد کی جائے۔آپ کا اٹھایا ایک قدم معاشرہ میں واضح تبدیلی پیدا کر سکتا ہے۔
یہاں ہر کوئی ذہنی تناؤ میں ہے
جو مسکرا رہا ہے وہ بھی دباؤ میں ہے