ہر سال 29 اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں فالج کے مرض سے آگاہی کا دن منانے کا مقصد عوام میں اس مرض سے بچاؤکے لیے شعور بیدار کرنا ہے۔ فالج کی بنیادی وجہ بلڈ پریشر ہے جس کی کمی یا زیادتی کے سبب دماغ کو ملنے والی خون کی فراہمی یا تو معطل ہو جاتی ہے یا دماغی شریان پھٹنے سے خون رسنے لگتاہے، خون کی شریانوں کا بند ہو جانا یا پھٹ جانا فالج کہلاتاہے۔ جب فالج کا حملہ ہوتا ہے تو دماغ کے متاثرہ حصوں میں موجود سیلز آکسیجن اور خون کی فراہمی بند ہونے کی وجہ سے مرنا شروع ہو جاتے ہیں، اس کے نتیجے میں جسم کا پورا،آدھا یا کچھ حصہ مفلوج ہوجاتاہے، سنگین صورتحال میں فالج فوراً موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں معذوریوں میں سب سے زیادہ تعداد فالج سے متاثرہ افراد کی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ایک کروڑ 80 لاکھ افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں، اس طرح دنیا بھر میں ہر 10 سیکنڈ میں ایک فرد اس مرض کا شکار ہوجاتا ہے، جبکہ ہر 10 میں سے ایک مریض جانبر نہیں رہ پاتا۔ فالج کا شکار ہونے والے 70 فیصد افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے جہاں 20 سے 40 فیصد مریض یہ روگ لگنے کے 3 ماہ کے اندر دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اس مرض پر کنٹرول نہ کیا گیا تو سال 2030 ء تک اس مرض کا شکار افراد کی تعداد تین کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان میں اس مرض کے حوالے سے صورتحال تکلیف دہ ہے جہاں روزانہ ایک ہزار افراد فالج کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر 6 میں سے ایک مرد کو فالج کا خطرہ لاحق ہوتا ہے، جبکہ خواتین کے معاملے میں یہ صورتحال مزید سنگین ہے کہ ہر5 میں سے ایک خاتون کو فالج کے حملے کا خطرہ در پیش ہوتا ہے۔ہمارے ملک میں 15 سے 45 برس عمر والے 20 سے 25 فیصد افراد فالج کی زد میں آ رہے ہیں، یہ تناسب دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یورپ اور امریکا میں حفاظتی تدابیر اور اقدامات کے سبب یہ تناسب 10 فیصد رہ گیا ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ بدقسمتی سے 45 برس سے بڑھتی عمر والے ایک تہائی افراد خون کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا شکار ہیں جبکہ یہ بات اور تکلیف دہ ہے کہ ان میں سے نصف تعداد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس خاموش قاتل کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد بھی فالج کا سبب بن رہی ہے، قیاس ہے کہ 2020ء تک پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ فالج ایک ایسا موذی مرض ہے جس سے صرف پاکستان میں روزانہ سینکڑوں افراد خاموشی سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جبکہ فالج ایسا مرض نہیں ہے جس سے بچنا نا ممکن ہو، اگر ضروری احتیاطی تدابیر اختیارکی جائیں تو اس مرض پر قابو پانا اور اس کے سبب پیش آنے والی ذہنی، جسمانی و مالی تکالیف سے بچا جا سکتا ہے۔ لا علمی اور اس مرض میں مبتلا افراد کے علاج میں غفلت و کوتاہی بھی اموات کا سبب بن رہی ہے۔جبکہ اس مرض سے عوامی آگاہی اور بچاؤ کے لیے شعور کی بیداری انتہائی ضروری ہے۔
تمباکو نوشی کے مہلک اثرات ہم سب پر عیاں ہیں، مگر پھر بھی اس سے گریز اور اجتناب تو درکار کمی کا تصور بھی نہیں کیا جارہا بلکہ لوگوں میں، خاص طور پر نوجوانوں میں تمباکو نوشی کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے، دوسری جانب نسوار، پان، گٹکا، شیشہ کے بے جا استعمال کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی اور سی بھی فالج کی شرح میں اضافے کا سبب ہیں، مزید برآں سردرد، لقوہ، بھول کی عادت، نسوں کی بیماری، ہاتھ پاؤں کا سن ہوجانا، پٹھوں اور کمر کا درد، بے خوابی، چکر کا آنا، پیدائشی دماغی نقائص اور دماغی ٹی بی جیسے اعصابی امراض کو بھی نظر انداز کرنا فالج کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سماجی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، مالی مسائل کے سبب بھی لوگوں میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر فالج کا مریض بننے کا امکان موجود رہتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار افراد میں فالج کا خطرہ 45 فیصد اور اس کے نتیجے میں موت کا امکان 55 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ یہ ایک المیہ ہے کہ فالج کے90 فیصد مریض علاج کے لیے ہسپتال نہیں جاتے اور موزوں علاج سے عدم توجہی برتتے ہوئے دوسرے طریقوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جن میں جنگلی کبوتر کے خون کا استعمال بھی شامل ہے۔ جبکہ دماغی فالج کے سبب قوت گویائی متاثر ہونے پر الفاظ کی نادرست ادائیگی کو جن بھوت کے اثرات گردانا جاتا ہے۔
ماہر اعصابی امراض کا کہنا ہے کہ اگر بروقت علاج پر توجہ دی جائے تو فالج کے مہلک اثرات سے بچاؤ ممکن ہے۔ فالج کے نقصانات سے بچنے کے لیے تشخیص کردہ ادویات کا مسلسل استعمال لازمی ہے، نمک کا کم سے کم استعمال کرکے بھی فالج سے بچا جاسکتا ہے جب کہ زہر قاتل کی حیثیت رکھنے والی تمباکو نوشی سے اجتناب زندگی کی مسرتوں میں اضافہ کر سکتا ہے، مزید برآں روزانہ 30 منٹ تک ورزش کو معمول بنالیا جائے توسودمند رہتا ہے۔ بلڈ پریشر کواعتدال پر رکھا جائے تو فالج کے امکانات 25 فیصد کم ہوجاتے ہیں، علاوہ ازیں ذیابیطس اور کولیسٹرول کو قابو میں رکھنا لازمی ہے۔ مرغن غذاؤں کی بجائے پھلوں اور سبزیوں کا استعمال فالج کے خطرے کو 52 فیصد تک کم کرتا ہے۔ سیب، ناشپاتی،کیلے، گوبھی، کھیرے، لہسن اور پیاز وغیرہ کا مناسب استعمال بھی اس حوالے سے فائدہ مندہے۔ فالج کے حملے کی علامات میں مریض کی زبان کا بند ہوجانا اور بولنے کی صلاحیت معطل ہوجانا، ہاتھ اور پاؤں کی معذوری اور بینائی کا چلا جانا شامل ہے، فالج کا حملہ ہونے پر مریض کو 3 گھنٹے میں قریبی ہسپتال پہنچایا جائے تو اسے مخصوص انجکشن لگانے سے زندگی کے بچاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، دل کے امراض میں مبتلا افراد کو فالج جیسے امراض سے بچنے کے لیے خصوصی طور پر حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے، ڈپریشن میں کمی لاکر فالج کو قریب آنے سے روکا جاسکتا ہے۔