2 اکتوبر جمعہ کے روز نیویارک میں گلوکارہ ریھانہ نے اپنا زیر جامہ کا ایک فیشن شو منعقد کیا۔ ہر فیشن شو کی طرح اس میں بھی وہ سب کچھ تھا جو ایسے شوز کا خاصہ ہوتا ہے۔ جو بات خطرناک بلکہ خوفناک حد تک متوجہ ہونے کی ہے وہ اس میں کویت کے قاری مشاری کی آواز میں ایک حدیث کو گانے میں ریمکس کیا گیا۔ اس گانے کا نام ڈووم(عذاب/تباہی) رکھا گیا۔ جو حدیث اس میں شامل کی گئی وہ حدیث قیامت کی نشانیوں کے حوالے سے ہے۔ اس پر انتہائی بےہودہ ناچ ناچتے نیم برہنہ مرد و زن دیوانہ وار ناچتے ہیں ان کے جسموں پر لباس نہیں ہیں صرف برائے نام زیر جامہ ہیں اور پس منظر میں عربی میں حدیث پڑھی جا رہی ہے ۔ یہ انتہائی قبیح اور قابل مذمت حرکت ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے جب شدید ردعمل آیا تو ریحانہ نے انسٹا گرام پر یہ معذرت کی کہ وہ تو جانتی ہی نہیں کہ شو میں ایسا کچھ ہے۔ یہ محض انتخاب کی غلطی ہے ورنہ ہمارا ارادہ کسی بھی مذہب کے لوگوں کے جذبات کو زک پہنچانے کا نہیں تھا۔ اس کا اظہار لاعلمی کرنا ڈھٹائی بلکہ جرم پر جالی دار پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس کی اس بھونڈی دلیل کو مانا نہیں جا سکتا کیونکہ کوئی بھی فیشن شو جب کوئی ڈیزائنر کراتا ہے تو اس کے ہر ہر پہلو پر اس کی نظر ہوتی ہے۔چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات کو نظر میں رکھا جاتا ہے۔ اس میں کون سے گانے ، اداکار ،سٹیج، لباس ہر چیز پر نظر ہوتی ہے اس لئے یہ بات تو قطعی مانی نہیں جا سکتی۔اور ریھانہ تو خود گلوکارہ ہے۔ دوسری بات یہ گانا پہلی بار نہیں ریلیز ہوا اس سے قبل 2017 میں بھی اس نے اپنے کسی شو میں یہ چلایا تھا۔ گانے کی پروڈیوسر کوکولو جس کا یہ گانا ہے اس نے بھی معصوم بننے کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے بھی کوئی معلوم نہیں تھا کہ یہ حدیث ہے۔ یہ بات بھی صریح جھوٹ ہے کیونکہ گانے کا نام ڈووم ہے اور جو حدیث شامل کی گئی ہے وہ آخرت ہی کے حوالے سے ہے۔ نا صرف یہ دانستہ کیا گیا ہے بلکہ اس کو شامل کرنے والے اس حدیث کے معنی سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ یہ شو اور گلوکارہ قابل مذمت ہے۔
کفار ہر کچھ دن بعد السلام پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے اظہار رائے کی آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ دراصل وہ مسلمانوں میں زندگی کے آثار چیک کرتے ہیں کہ ابھی کس حد تک بیدار ہیں۔ یاد رکھیں مومن لاعلم نہیں ہوتا اور نا ہی لاعلمی مومن کو زیب دیتی ہے۔ ہماری قرآن و حدیث سے محبت ہماری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی آزمائش کی جاتی ہے۔ کہیں قرآن جلانے کے واقعات ،کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنانے کی گستاخانہ حرکتیں اور اب حدیث کو ننگے ناچ میں گانوں کا ریمکس بنانا۔ پھر معصوم بن کر معذرتیں ان کا معمول بن گئی ہیں۔ بعض تو معذرت کا تکلف بھی نہیں کرتے۔ مسلمان بہنو اور بھائیو جاگتے رہیں۔ جب یہ اپنی ان رذیل حرکتوں پر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں تو فورا ان کو اظہار رائے کی آزادی یاد آجاتی ہے۔ یہودیوں کی ایک غیر سرکاری تنظیم اے ڈی ایل کے نام سے ہے جس کو بنانے کا مقصد پوری دنیا میں کہیں بھی یہود مخالف مواد پر نظر رکھنا ہے۔ وہ انٹر نیٹ پر ویڈیوز، ٹیویٹ، پوسٹس، اخبارات و جرائد پر نظر رکھتے ہیں۔ جہاں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی یہود مخالف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے فورا متعلقہ کمپنی یا ادارے تک شکایات پہنچاتے ہیں اور اس کا ازالہ کرنے تک مصروف عمل رہتے ہیں۔ بلکہ آپ (ابھی بھی گوگل کر کے دیکھیں تو چند گھنٹے قبل انہوں نے کسی اکاونٹ کو بند کرایا ہو گا۔)جب اسلام مخالف پروپیگنڈے کی بات آتی ہے تو منافقین یعنی کے میڈیا ہاوسز اظہار رائے کی آزادی کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے اپنے لوگ بھی کہیں گے سات سمندر پار ہونے والے واقعے پر کیوں کچھ کہا جائے یہ تو انتہا پسندی ہے۔ اگر دین کے شعائر کی حفاظت کے لئے آواز اٹھانا انتہا پسندی ہے تو ہم انتہا پسند ہیں۔کہا جاتا ہے آپ کی آواز کون سنے گا ؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے سلگائی گئی آگ بجھانے کے لئے چڑیا اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لائی تھی۔ یاد رکھیں یہ لٹمس ٹیسٹ ہے۔ کوشش اور سعی دیکھی جائے گی مقدار و تعداد رہنے دیں۔