موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت کے بارے میں ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ یہ کسی بھی وقت یا کسی بھی لمحے آ سکتی ہے اور ہماری جان کو اچک کر لے جاسکتی ہے۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود وہ سوچ جس کو انسانوں نے اپنے اذہان میں مضبوطی اور پختگی سے بیٹھایا ہوا ہے۔ وہ اس حقیقت کے برعکس ہے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ موت بے شک آنی ہے لیکن ابھی مجھے جینا ہے۔ ابھی میرے مرنے میں کچھ وقت باقی ہے۔ یہ سوچ اس کے ذہن میں ایک حقیقت کی طرح موجود ہے۔ جبکہ یہ ایک جھوٹ ہے جس کو اس نے سچ مانا ہوا ہے۔
یہ سوچ ہمارے روزمرہ کے کاموں پر غیرمحسوس انداز سے اثر انداز ہوتی ہے۔ جیسا کہ کسی بھی کام کو سستی ، بے دلی یا وقتی فائدے کے لیے کرنا۔ یا کسی بھی کام کو بے ہنگم انداز سے کرکے سر سے بلا اتارنا۔ مثال کہ طور پر ہماری نمازوں میں خشوع وخضوع نہیں ہوتا۔ ہم نمازوں کا باقاعدہ اہتمام نہیں کر پاتے۔ دن بھر کی تھکن اور سوچوں کو دماغ میں جگہ دیے اللّٰہ کے حضور کھڑے ہوجاتے ہیں اور پوری نماز رٹو طوطے کی طرح پڑھ دیتے ہیں۔ ہم اپنی زبان سے ادا کردہ الفاظ سے بھی غافل ہوتے ہیں کہ کب ہم نے کیا بولا۔ لیکن اگر ایک حقیقی سوچ ہمارے ذہن میں بیٹھ جائے کہ موت کبھی بھی آسکتی ہے اور کبھی بھی یہ ہو سکتا ہے کہ جو نماز ہم پڑھ رہے ہیں وہ آخری نماز بھی ہوسکتی ہے۔ تو ہم کبھی بھی اس طریقے سے نماز ادا نہ کریں۔
اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ میرے پاس اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے صرف چند سیکنڈ بقایا ہیں اور ہم اس کے بعد دوبارہ کبھی نہیں مل سکیں گے۔ تو اس وقت ہم صرف انھیں محبت اور اپنائیت سے ہی دیکھیں گے۔ نہ کہ پرانے غلے شکوے کریں گے۔ مطلب یہ کہ ہم جتنا موت کو قریب سے محسوس کریں گے تو ہماری زندگی میں اتنی ہی خوبصورتی پیدا ہو گی۔ ہمارے اعمال اتنے ہی بہتر ہوں گے۔
حدیث کے خوبصورت الفاظ بھی ذہن میں گونج رہے ہیں کہ
” موت کو کثرت سے یاد کرو۔”