یورپ اسے آزادئیِ اظہار کا نام دیتا ہے۔
ان کے نزدیک آزادئیِ اظہار یہ ہے کہ وہ میرے باپ کو گالی دیں اور میں اسے خندہ پیشانی سے برداشت کروں، وہ میری ماں کے لئے نازیبا الفاظ کہیں اور میں بےغیرتی کی حد پھلانگ کر مسکراتا چلا جاؤں، ایسا ممکن ہے یہ ہوسکتا ہے لیکن۔۔۔ سور کے گوشت پر پلے یہ دریدہ دہن میرے سرکار صلی اللہ و علیہ وسلم کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا آئین، دستور اور اخلاقیات اسکی اجازت دیتے ہیں میرا سوال ہے کہ آخر یہ گورے ہولو کاسٹ پر کوئی کارٹون کیوں نہیں بناتے ؟
ان کا قانون وہاں بے بسی کو پونچھا کیوں بن جاتا ہے؟ ان کی زبانیں کیوں گنگ ہو جاتی ہیں؟ آخر دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں یہودیوں کے اجتماعی قتل عام کے بارے میں کوئی سوال کیوں نہیں اٹھاتا؟ تنقید کیوں نہیں کرتا ۔۔۔ کوئی چارلی ایبڈو اس پر کارٹون کیوں نہیں چھاپتا؟ ۔۔۔ کوئی ٹیچر بلیک بورڈ پر اس حوالے سے کارٹون کیوں نہیں بناتا ۔۔۔؟
مدر پدر آزادی کو زندگی کا دستور قرار دینے والے گوروں نے یہودیوں کو دل آزاری سے بچانے کے لئے تو قانون بنا دیا یا یہودیوں نے قانون بنوادیا لیکن مسلمانوں کے آن شان جان سرکار دو عالم سمیت مقدس ہستیوں کی توقیر کی حفاظت کے لئے کوئی قانون کیوں نہیں ؟
اس وقت آسٹريا ، بیلجيم ، جمہوريہ چک ، فرانس ، جرمنی ، ليتھوانيا ، پولينڈ ، رومانيہ ، سلواکيہ اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ ميں “ہولو کاسٹ کے انکار” یا اسے مبالغہ آرائی قرار دئیے جانے کو جرم سمجھا جاتا ہے اور سوال اٹھانے والے مجرم کو نقد جرمانہ يا قيد کی سزا بھگتنا پڑتی ہے 2006ء ميں برطانوی مؤرخ ڈيوڈ ارونگ اور فرانسيسی محقق راجر گارودی کو “ہولو کاسٹ” پر تنقید کی پاداش میں سزا بھگتنا پڑی تھی عجیب بات ہے کہ دنیا بھر کے محض ایک کروڑ چالیس لاکھ یہودیوں کی دل آزاری تو جرم ہے لیکن نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بکواس کر کے دو ارب مسلمانوں کا دل دکھانا جرم نہیں ؟