سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں اس سے مراد معینہ مدت کے قرض پروہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے۔ یہ اضافہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔
اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں مگر ہر زیادتی ربا نہیں ہوتی بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو سود ہے شرط کے بغیر اگر مقروض خوشی سے کچھ مال دے دے تو جائز ہے وہ سود کی تعریف میں نہیں آتا۔
سود کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے ارشاد ربانی ہے کہ
اے لوگو جو ایمان لائے ہواللہ سے ڈرواور جو سود تمہارا لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو جان لو کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔(سورہ بقرہ)
سود کو اللہ اور رسول کے ساتھ جنگ قرار دیا گیا ہے اور اس کے سنگین نتائج سے ڈرایا گیا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں سود کا ذکر صدقہ اور خیرات کے مقابلے میں کیا ہے سود کا سبب بخل اور حرص ہے۔ سودخور چاہتا ہے کہ ساری دولت سمٹ کر اس کے ہاتھ میں آجائے اس معاملے میں وہ کسی غریب مقروض کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں کرنا چاہتا اور نہ کسی کارخیر میں رقم دے کر اپنے مال میں کمی کرنا پسند کرتا ہے سود در سودکے ذریعے وہ لوگوں کی محنت سے کمائی ہوئی رقم سے انہیں محروم کر دیتا ہے اور ان کے ساتھ ظلم کرتا ہے۔ اس طرح امیر , امیرتراور غریب, غریب تر ہو جاتا ہے.
اسلام سے پہلے سود خواری عام تھی اور یہ کام زیادہ تر یہودی سرمایہ دار کرتے تھے۔غریب عرب زیادہ تر انہیں سےسود پر قرض لیتے تھے برصغیر پاک و ہند میں ہندو بنیے سود پر قرض دے کر غریب کاشتکار وں کی زندگی اجیرن کر دیتے تھے۔ اسلام نے اس لعنت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا سود لینا اور دینا ممنوع قراردے دیانہ صرف یہ بلکہ اسلام میں سودی معاہدہ لکھنا اور ان کی گواہی دینا بھی حرام ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی سود کھانے والے پر،سود دینےوالے پر، اس کے گواہوں پر اور اس کے لکھنے والے پر۔(ترمذی)
سودظلم کی ایک شکل ہے سود خوار بغیر محنت اور مشقت کئے ایک شخص کی محنت کی کمائی چھین لیتا ہے اس کی حق تلفی کرتا ہےاس حق تلفی کی وجہ سے معاشرے میں بےچینی پھیلتی ہے جب حق دار کو اس کا حق نہیں ملتا تو وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے نا جائزذرائعاستعمال کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل ملکوں میں سودی نظام کی بدولت جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے چوری، ڈکیتی ،رشوت خوری، بدعنوانی وغیرہ جیسے مفا سد کی بنیادی وجہ دراصل سودی نظام ہے جو ملکی معیشت کو دیمک کی طرح کمزور سےکمزور تر کر رہا ہے اس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے غرض ظلم کا ایک سلسلہ ہے جو سودی نظام کے زیر اثر بڑھتا چلا جا رہا ہے سود اپنے ساتھ معاشرے میں زر پرستی، بخل حرص، ہو س جیسے مفاسدکی پرورش کرتا ہے۔ سود خور انسانیت کی اعلی صفات خدا ترسی اور خدا خوفی سے محروم ہو جاتا ہے اس کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے.
اسلام سود کے مقابلے میں انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کرتا ہے ارشاد ربانی ہے۔
اللہ تعالی سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کونشونما دیتا ہے۔(سورہ بقرہ)
اسلام دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کی بجائے اسے گردش میں لانے کی تعلیم دیتا ہے اور اس کا ذریعہ نظام زکوۃ ،صدقہ اور خیرات کوبناتا ہے۔ صدقہاور خیرات کے ذریعے دولت غریب اور ضرورت مند افراد تک پہنچتی ہے اور معاشرے میں امن سکون سلامتی باہمی رواداری اور محبت کو فروغ ملتا ہے امیر غریبوں پر خرچ کرتے ہیں ان کی محرومیاں دور کرتے ہیں اور خیر خواہی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں غریبوں کا احساس محرومی ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنی عزت نفس برقرار رکھنے کے قابل بنتے ہیں۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں اور خودبھی کسی کا سہارابننے کی کوشش کرتے ہیںاس طرح زکوۃ اور صدقات کا نظام معاشرے میں خیر اور بھلائی کا سبب بنتا ہے۔
موجودہ دور میں سودی نظام نے نظام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وطن عزیز میں بھی سودی نظام نےاپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں بینکوں میں سودی لین دین ہوتا ہے پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس بنا پر یہاں سود پر پابندی ہونی چاہیے کچھ نجی اسلامی بینک کوشش کر رہے ہیں کے عوام کو غیر سودی کاروبار کی سہولت دی جائے لیکن ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے یہ حکومت کی ذمہ داری ہےکہ ملک سے سودکو ختم کرے تاکہ ہم اسلامی معاشرے اور اسلامی نظام کی برکتوں سے مستفید ہو سکیں۔