’’مجھے یاد ہے، ایک مرتبہ مرحوم راجہ غضنفر علی خان مجھ سے ملنے کے لیے منیلا تشریف لائے (جب میں وہاں پاکستان کا سفیر تھا)۔ انہوں نے بتایا کہ جب ان کو سفیر بنا کر بعض مسلمان ملکوں میں بھیجا جا رہا تھا تو ان کو قائدین کی طرف سے ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ پاکستان کی مالی ضروریات کا ذکر کرکے، غیروں کی نظروں میں پاکستانی قوم کی خودداری اور عزت کو خراب نہ کریں۔
راجہ صاحب اس موقع پر چین کا دورہ کرکے منیلا پہنچے تھے۔ وہ چین کی انقلابی قیادت سے اس بات پر سخت متاثر تھے کہ وہ اپنی ہی قوتِ بازو اور ملی وسائل سے اپنا ملک بنا رہی تھی، کسی مالدار ملک کے سامنے اپنا دامن نہیں پھیلا رہی تھی۔ امریکی جنرل مارشل شروع ہی میں امداد کی آفر لے کر وہاں پہنچا تھا مگر اس کو یہ جواب دے کر واپس کر دیا گیا کہ ’’نیا چین غریب ہی سہی ۔۔۔۔ خانہ جنگی اور جاپانی قبضہ کی وجہ سے فی الحال تباہ حال ہی سہی، مگر وہ اپنی قوت سے پھر اٹھ کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا۔ دوسروں کے سہارے نہیں۔‘‘
قدرتِ خدا، دو سال بعد میں خود سفیر بن کر چین گیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بھی چین میں وہی صورتحال دیکھی جس کا ذکر غضنفر علی خان مجھ سے کر گئے تھے بلکہ اس وقت تک تو چینیوں نے اپنے ہم خیال (و ہم نظریہ) روسی کمیونسٹ صلاحکاروں کو بھی اپنے یہاں سے محض اسی بناء پر راتوں رات بھگا دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو چین کا محسن سمجھنے لگے تھے۔ یہ بات چین نے اپنی آزادی اور قومی وقار کے منافی سمجھ کر روس سے دشمنی مول لے لی مگر روسیوں میں اس احساس کا پیدا ہونا کہ وہ چین کے محسن ہیں، گوارا نہیں کیا۔
انہی دنوں ایک مرتبہ مجھے چین کا ایک لیڈر بغرضِ سیر و تفریح، پیکنگ کے قریب سمر پیلس لے کر گیا، وہاں ہم کشتیوں میں گھوم رہے تھے۔ آپس کی گفتگو بے تکلفی کے انداز میں ہونے لگی۔ چین کے اس وقت کے حالات کا ذکر چھڑا، میں نے رازدارانہ اور مخلصانہ انداز میں کہا کہ: ’’چین میں ہنوز کئی چیزوں کی کمی نظر آ رہی ہے، مثلاََ ریل گاڑی میں کپلنگ کی جگہ رسیاں باندھی جاتی ہیں، فوٹو کھینچنے کے لیے لکڑی کے بکسوں میں لینز لگا کر ان سے کیمرہ کا کام لیا جاتا ہے، ہسپتالوں میں پچاس سال کی پرانی ایکسرے مشینیں استعمال کی جا رہی ہیں۔ کیوں نہ بعض دوسرے ملکوں کی طرح چین بھی امریکی مزاج سے فائدہ اٹھاتا جب کہ امریکہ ساری دنیا میں بے تحاشہ پیسے پھینک رہا ہے اور ہر حاجت مند ملک اس کو جھانسے دے کر اپنی ضرورتیں پوری کر رہا ہے؟‘‘
میرے میزبان نے یہ جواب دیا:’’جو چین امریکہ یا کسی دوسرے ملک کی مدد کے سوا اپنی تعمیر نہیں کرسکتا، ہم اس چین کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنا پسند کریں گے، بہ نسبت اس کے کہ اس کو دوسروں کے سہارے اُٹھتا دیکھیں۔‘‘
یہی عزم اور یہی احساسِ خودداری تھا جس کی بدولت چین نے چند سالوں کے اندر ایٹم بم بنا لیا اور امریکہ کا صدر بنفسِ نفیس ٹوپلا ہاتھ میں لیے ان کے یہاں حاضریاں بھرتا دیکھا گیا۔ (’’رودادِ چمن‘‘ از پیر علی محمد راشدی صفحہ 97،98)