اس دنیا کی سب سے بڑی اور جامع حقیقت انسان کا اس دنیائے فانی سے کوچ کر جانا ہے۔جو آیا ہے اس نے واپس جانا ہے۔ میرا رب جس کے لئے رخصتی کا فرمان جاری کر دیتا ہے، موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرتے ہوئے کوئی عذر قبول نہیں کرتا، کہ وہ امیر ہے یا غریب، چھوٹا ہے یا بڑا، نیک ہے یا بد، ہر دلعزیز ہے یا دل بیزار ۔ جانے والے کو کوئی روک نہیں سکتا۔
اہم بات یہ ہے کہ اس جانے والے کو جو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت عمل ملی تھی، کیا اس نے اس سے فائیدہ اٹھایا ؟ جس امتحان کی نگری میں بھیجا گیا تھا کیا اس میں کامیاب ہوا ؟
کیا اس نے اپنی زندگی فانی میں آخرت کے لیے کوئی ایسا سامان تیار کیا جس سے اس کا رب راضی ہو جائے۔جس نے اپنے لیے نوشتہ آخرت تیار کر لیا۔ اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کر کے، اپنے جسم و جان کو مشقتوں میں ڈال کر اسے راضی کر لیا، وہ کامیاب زندگی گزار گیا۔ ایسا شخص اپنے رب کے انعام و اکرام کو اپنے لیے لازم کر لیتا ۔ اور مالک کی طرف سے اسے نفس مطمئنہ کا لقب مل جاتا ہے۔رب کے بھیجے فرستادے آ کر اسے رب کا پیغام سناتے ہیں جو قرآن کریم کی سورۃ فجر میں فرمایا گیا ہے۔
اے اطمینان والی روح تو اپنے پروردگار کی طرف چل خوش ہوتی ہوئی اور خوش کرتی ہوئی۔ تو میرے خاص بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
ایک ایسی ہی کامیاب زندگی گزارنے والی ہستی جس کے بارے میں لوگوں نے نفس مطمئنہ ہونے کی گواہی بھی دی۔ جو دنیا میں ہر دلعزیز بھی تھی۔
جس کا نصب العین اللّہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی تھا، پھر اسی مقصد کے حصول میں اپنی عمر کھپا دی۔ جو جاتے ہوئے ہر آنکھ کو اشکبار کر گیا۔ یہ ہستی جماعت اسلامی پاکستان کے ترجمان، ڈائریکٹر امور خارجہ،اور نائب امیر ، عبدالغفار عزیز کی ہے۔
عبد الغفار عزیز نے پانچ اکتوبر کی رات وفات پائی۔ یہ خبر ہی بے یقینی والی تھی۔ میں تو اسی خیال میں تھی کہ اتنے زیادہ لوگ ان کی صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں۔ یہ ضرور صحت یاب ہو کر اپنے مشن پر واپس آئیں گے۔ صدمہ تو بہت تھا لیکن میرے رب کی حکمتیں میرا رب ہی جانے۔
چند ماہ پہلے کی بات ہے۔ رات سونے سے پہلے، بے خیالی میں ہی فیس بک دیکھنی شروع کر دی۔ اچانک نظر عبد اللہ بن عباس کی شیئر کی گئی پوسٹ پر پڑی۔ کہ ماموں جان کل سے ہسپتال میں بہوشی کی حالت میں ہیں۔ ساتھ دعا کی بھی اپیل کی گئی۔یہ خبر ایک دھماکہ خیز تھی۔
حیرت وبے یقینی کی کیفیت تھی۔ کیونکہ بھائی کی طبیعت خراب یا بیماری کے بارے میں کبھی کچھ نہیں سنا تھا۔یہ اچانک کیسے اتنی زیادہ طبیعت خراب ہو گئی۔ یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ مرد مجاہد باطل کے خلاف جہاد کے ساتھ ساتھ خاموشی سے بغیر کسی پر ظاہر کئے اندر ہی اندر اپنی بیماری سے بھی لڑ رہا تھا۔
میں نے خبر کی تصدیق کے لیے ہمشیرہ عبد الغفار عزیز، مدیرہ خواتین میگزین عابدہ عباس کو فون کیا۔ وہ سب لوگ بھی اس اچانک آنے والی افتاد پر غمزدہ تھے۔ دل سے دعا نکلی کہ یا اللّہ اس خاندان کو مزید کسی آزمائش سے دو چار نہ کرنا۔ کیونکہ تقریباً عرصہ چار سال کے اندر اندر اس خاندان کے کئی افراد چلے گئے تھے۔ جن میں بھائی عبد الغفار کے والدین، بہنوئی، جوان بھانجا اور عباس اختر اعوان کی والدہ شامل ہیں۔
پھر یہ سوچ کر دل مزید غمگین ہو گیا کہ عبدالغفار کا بیمار ہونا بھی صرف خاندان اور عزیز و اقارب کے لیے ہی تو صدمہ نہیں بلکہ یہ تو پاکستان اور امت مسلمہ کا غم ہے۔ تحریک اسلامی کا ایک روح رواں، اچانک بستر پر پڑ جائے، یہ ایک بڑا حادثہ تھا۔
عبد الغفار عزیز کے بیمار ہونے کے بعد کوئی دشمن ہی ہو گا جو اس کے لیے دعا گو نہ ہو گا۔ پاکستان تو پاکستان۔۔۔ دوسرے اسلامی ممالک سے بھی دعائیہ پیغامات آنے لگے۔عالم اسلام کے لوگ ان کے لئے دعا گو کیوں نہ ہوتے ان کا دل بھی تو ہر وقت مسلمانوں کے درد میں ڈوبا رہتا تھا۔
یہ بھائی، مقبوضہ اور مظلوم خطوں کے بارے میں نہ صرف وسیع معلومات رکھتے تھے۔ بلکہ ان پر ہونے والے جبروستم کی تصویر دنیا والوں کو دکھاتے۔ فراعین دنیا کے سامنے ان کی آواز بنتے۔ کشمیر ، شام، مصر ، لبیا ، سوڈان ، فلسطین اور افغانستان کے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں بے چین رہتے۔ جتنا ممکن ہو سکا، اپنی زبان وقلم سے ان مسلمانوں کا خوب ساتھ دیا۔ دنیا میں کسی بھی مسلم خطہ پر کوئی آنچ آتی۔ تو ان کے حق میں عبدالغفار کا کلپ بھی نشر ہو جاتا۔ ہفت روزہ ایشیا اور ماہنامہ ترجمان القرآن میں عبد الغفار عزیز کی معلوماتی اور امت مسلمہ کے درد میں ڈوبی تحریریں پڑھنے کو ملتیں۔فن خطابت میں بھی زبردست صلاحیت رکھتے تھے۔ انداز بیان مربوط اور پر تاثیر تھا۔
عبد الغفار عزیز صاحب کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ دینوی وعصری علوم جاننے والے تھے۔ تعلیم پہلے پاکستان میں حاصل کی پھر اعلی شریعہ علوم اور عربی علم وادب کے حصول کے لیے قطر چلے گئے۔ ذہین اس قدر کہ دوران تعلیم قطر ، چھٹی پر پاکستان آئے۔ ان دنوں درس نظامی وفاق المدارس پاکستان کے داخلے جا رہے تھے۔ عبدالغفار عزیز نے بھی سال اول یعنی عامہ کا داخلہ بھیج دیا۔ صرف ایک ماہ کی تیاری سے امتحان دیا اور بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ حصول تعلیم کے بعد جب قطر سے واپس آئے تو آتے ہی اپنے آپ کو دین کی خدمت میں لگا دیا۔
پاکستان میں جماعت اسلامی پاکستان کے ترجمان مقرر ہوئے اور عالم اسلام سے وابستہ اسلامی تحریکوں کے مابین رابطے کا ذریعہ بنے ۔ کوئی کالم نگار ہے یا اینکر پرسن۔ کسی نے بھی اسلامی تحریکوں کے متعلق معلومات حاصل کرنی ہوتی تو رابطہ عبد الغفار عزیز سے ہوتا۔
ڈائریکٹر امور خارجہ جماعت اسلامی پاکستان کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ جماعت کے نائب امیر بھی منتخب تھے۔ ذاتی زندگی میں درویش صفت تھے۔ حقوق العباد کا خیال رکھنے والے، رشتوں کے ساتھ جڑ کر رہنے والے تھے۔ دنیاوی راحتوں وآسائشوں سے منہ موڑ کر صرف سامان آخرت تیار کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے بیوی بچوں کے لیے اللّہ اور اس کا رسول چھوڑ جانے کو پسند کیا۔دوسری طرف ایسے مثالی انسان گھنٹوں یا دنوں میں تیار نہیں ہو جاتے ۔
بلاشبہ ہدایت میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن تدبیر کے طور پر بھی محترم عبد الغفار جیسے عظیم انسانوں کے پیچھے کچھ لوگوں کی برسوں کی ریاضتیں وعبادتیں بھی ہوتیں ہیں۔ اس زمرے میں عبدالغفار صاحب کے عظیم والدین کا ذکر نہ کرنا، نا انصافی ہو گا۔
اس نیک صالح، صابر و شاکر، متقی و پرہیز گار، زاہد و عابد جوڑے نے بھی اپنی ساری زندگی رب کی رضا میں ہی وقف کی ۔ ان کے روشن چہرے والے والد محترم جناب عبد الرحمٰن عزیز، بھی رکن جماعت اسلامی تھے اور ساری زندگی انسانیت کی خدمت میں ہی بسر کی۔ ان کی عبادت گزاری کا حال یہ تھا کہ تقریباً سات سال کی عمر میں نماز تہجد شروع کی اور پھر زندگی بھر کبھی نہ چھوڑی۔ زہد و تقوی میں زندگی گزاری ۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بعض اوقات اپنے بچوں کے چہروں کو شناخت کرنا تو بھول جاتے لیکن نماز اور تلاوت قرآن مسلسل جاری رہی۔ یہی حال والدہ کا تھا۔ میرا ان سے ملاقات کا عرصہ تقریباً بارہ سال
پر محیط ہے۔ پہلی ملاقات سے لے کر آخر تک، رخصت ہوتے وقت، مجھ جیسی احقر الناس سے یہ دعا کرنے کا ضرور کہا ۔ میرے لئے دعا کرنا کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو۔
انکی وفات سے چند دن قبل جب میں خالہ جان سے ملنے ہسپتال گئی۔ تو میں نہیں جانتی کہ انہوں نے مجھے پہچانا یا نہیں ۔ لیکن پاس کھڑی اپنی چھوٹی بیٹی کو اشارے سے میری مہمان نوازی کا کہ رہی تھیں۔ اور پھر تکلیف کی شدت میں ہی لیٹ کر نماز ادا کر رہی تھیں۔
مجھے یہ دونوں عظیم میاں بیوی اس وقت بہت یاد آئے جب پانچ اکتوبر 2020ء بعد از نماز ظہر جامع مسجد منصورہ میں عبدالغفار صاحب کے نماز جنازہ سے قبل ، امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق صاحب نے عبد الغفار عزیز کے بارے میں کچھ یادیں تازہ کرتے ہوئے ان کے لئے یہ شعر پڑھا۔۔۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
عظیم والدین کا عظیم بیٹا، عظیم اساتذہ کا عظیم شاگرد۔
نماز جنازہ عبد الغفار عزیز صاحب کے بڑے بھائی حبیب الرحمن صاحب نے بڑے حوصلے وصبرسے پڑھائی۔ اللهم اغفر له و ارحمه و اد خله جنت الفر دوس.
میں دعا گو ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے راستے کے اس راہی کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی قبر کو اپنے نور کی روشنی سے منور فرما دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ جماعت اسلامی اور دنیائے اسلام کے لئے ان جیسا کوئی ہیرا تیار کر کے ان کا نعم البدل عطاء فرما دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین۔۔۔