گزشتہ روز ایک ویڈیو نظر سے گزری ۔ ایک اماراتی وفد کے افراد کو فلسطینی مسجد الاقصی سے نکل جانے کا کہہ رہے تھے۔ انہیں وہاں نماز ادا کرنے نہیں دی گئی۔ یاد رہے یہ دوسرا وفد تھا جو اسرائیل سے تعلقات نارمل ہونے کے بعد بیت المقدس گیا۔ یہ غیر سرکاری وفد اسرائیلی پولیس کی جلوے میں جب مسجد اقصی میں داخل ہوا تو وہاں موجود فلسطینی نمازیوں نے انہیں فل الفور مسجد سے نکل جانے کا کہا ساتھ ہی ان کو ان کا اسرائیل کے ساتھ حالیہ معاہدہ یاد دلایا۔ القدس سے غداری کرنے والے مسجد الاقصی میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ واقعہ اتوار کو بحرین کے اسرائیل سے معاہدے پر دستخط کے بعد پیش آیا ہے۔ فلسطینی وزیراعظم نے اس معاہدے کے بارے میں کہا کہ “یہ معاہدہ اسرائیل کو فلسطین پر ناجائز قبضہ کے انعام کے طور پر کیا گیا ہے”۔ اس واقعہ کے حوالے سے کہا ان کا کہنا تھا کہ جو شخص مسجد اقصی میں داخل ہونا چاہے وہ اس کے حقیقی وارثوں کے ذریعے ہی داخل ہو سکتا ہے، اسرائیلی قبضے کے ناجائز دروازے سے داخل ہونے والوں کو ہم نہیں جانتے۔
وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا
اس واقعہ پر اس فلسطینی کو سلام کرنے کا دل چاہا اگرچہ ایک مسلمان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا دوسرے مسلمان کے ہاتھوں مگر یہ بھی تو دیکھا جائے کہ وہ مسلمان کس کے ساتھ کندھے ملا کر کھڑا ہے اور اسے ہونا کہاں تھا؟ وہ فلسطینی بھائی داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے احتجاج کیا اور شاید یہ کمزور فرد کا احتجاج اس طاقت اور پیسے کے نشے میں مست مسلمانوں کے ضمیر کو ذرا جھنجوڑ لے۔ ممکن ہے ان کو احساس زیاں ہو جائے۔ اس فلسطینی کو اس بات نے بھی خوفزدہ نہیں کیا کہ اس کی ایسی بات کے جواب میں گولی بھی کھانی پڑ سکتی ہے۔فلسطینیوں کئی سالوں سے پتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کرتے دیکھ رہے ہیں۔ اور ہم جو ایٹم بم رکھنے والے کہیں اوپر سے آئے حکموں پر اپنے اڈے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف حاضر کر رہے ہوتے اور اس پر کفر سے داد بھی چاہتے۔ وہ مفلوک الحال فلسطینی تیل سے مالامال ممالک سے زیادہ حمیت والے محسوس ہوتے ہیں کہ آخری سانس تک الاقصی پر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مجھے وہ فلسطینی ماں یاد آتی ہے جس کو بارہویں بیٹے کی پیدائش پر ڈاکٹر سمجھاتی ہے تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ الاقصی کو بیٹوں کی ضرورت ہے۔ مجھے وہ مصری ڈا کٹر یاد آتے ہیں جن کے کلینک میں سٹیکر چسپاں ہے جس پر عربی عبارت لکھی “ایک دن ہم الاقصی میں نماز ادا کریں گے۔ ان شاء اللہ “
اسرائیل کا ارادہ ہے کہ بیت المقدس کی سیاحت کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ جیسا کہ تمام الہامی مذاہب کا تعلق بیت المقدس سے نہایت گہرا ہے تو سب کے لئے بشمول مسلمانوں کے لئے بیت المقدس آنا آسان ہو جائے۔ سیاحت کا شعبہ پروان چڑھے خوب آمدن کا ذریعہ ہو گا۔ بیت المقدس میں خوب چہل پہل ہو گی۔ یہ خبر پڑھ کر وہ حدیث ذہن میں گھوم گئی۔
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت المقدس کی آبادی مدینہ کی ویرانی ہو گی، مدینہ کی ویرانی لڑائیوں اور فتنوں کا ظہور ہو گا، فتنوں کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح ہو گی، اور قسطنطنیہ کی فتح دجال کا ظہور ہو گا“ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس شخص یعنی معاذ بن جبل کی ران یا مونڈھے پر مارا جن سے آپ یہ بیان فرما رہے تھے، پھر فرمایا: ”یہ ایسے ہی یقینی ہے جیسے تمہارا یہاں ہونا یا بیٹھنا یقینی ہے“۔ (ابو داؤد، ترمذی، مسند احمد)