’’مجھ سے کام نہیں ہوتا، میں چھت پر جا رہی ہوں، میری اتنے دنوں سے طبیعت خراب ہے، آپ میں سے کسی نے میرا حال تک نہیں پوچھا؟
اب مہمان آ رہے ہیں تو مجھ سے کچن کے کام کروانے کے لئے فورا سے تم آگئی ہو؟‘‘
اقرا ء نے دل کی بھڑا س نکال دی اور ماریہ کو حیرت زدہ چھوڑ کراوپر چھت پر چلی گئی۔
ماریہ اُس کی نند تھی ، گھر میں کچھ مہمان آرہے تھے مگر اقراء کو پروا نہیں تھی۔اُس کی شادی اپنی مرضیٰ سے نہیں ہوئی تھی،اُس کے والدین نے زور زبردستی سے اُسے بیاہ دیا تھا،اقراء نے بھی سسرال پہنچتے ہی نت نئے تماشے شروع کر دیئے تھے۔
ماریہ اور اُسکی بیمار والدہ نے مہمانوں کے لئے جیسے کیسے کر کے کھانے کا بندوبست کر دیا تھا۔
یہ آج کی بات نہیں تھی، یہ پچھلے دو سالوں سے ہو رہا تھا ، دراصل اقراء اپنی مرضی سے شادی کی خواہاں تھی مگر والدین نے اچھا رشتہ دیکھ کر فوری گھر سے رخصت کر دیا تھا کہ اگر بات خاندان میں پھیل گئی کہ بیٹی پسند کی شادی کرنا چاہ رہی تھی تو اُن کی سبکی بہت ہونی تھی۔
لیکن اُس کے سسرال میں کارنامے اب پورے خاندان میں پھیل چکے تھے اور روزانہ اُ ن کو بیٹی کے حوالے سے بحث و مباحثہ کرنا پڑرہا تھا کہ بیٹی سدھر جائے گی بس کچھ ضدی سی ہے۔
دوسری طرف بلاول بہت خوش تھا کہ اُسے بہت خوب صورت سی لڑکی شریک حیات کے طو رپر مل گئی ہے، گھر میں کیا ہو رہا ہے اُسے خبر نہیں تھی،جب اُسے گھر میں اپنی ناک کے نیچے کچھ ہوتا صاف دکھائی ہونا شروع ہوا تو معاملات اُس کے ہاتھوں سے نکلنا شروع ہو چکے تھے۔
اپنی لاکھ کوشش کے باوجود وہ اقراء کا دل نہیں جیت سکا تھا۔اپنے گھر والوں کا بھی اعتماد کھو رہا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ تم تو بہت زن مرید ہو چکے ہو ، بیوی کو یہاں وہاں لے کر جاتے ہو ، مگر وہ ایک لمحے کے لئے بھی ہماری عزت و وقار کا خیال نہیں رکھتی ہے۔
’’ بلاول نا مرد ہے؟اگر ایسا نہ ہوتا تو کب کا ہمارا بچہ ہو جاتا ؟‘‘
اقراء نے یہ بات ہمسائی کو بتائی تھی اُس نے چند دنوں میں ہی محلے میں بتا دیا اور اب بلاول کے گھر والے منہ چھپا کر بیٹھ گئے تھے کہ اب اس لڑکی کا کیا کریں؟
انہو ں نے جب بلاول کو خاندان کی ہی ایک لڑکی سے شادی کرنے کی بات کہی تھی تو اُس نے اُس کی رنگت کے حوالے سے سو اعتراضات سامنے لاکھڑے کیے تھے۔
فائزہ شروع سے ہی لاپروا سی تھی ،اپنا خیال نہیں رکھتی تھی اور پڑھائی میں مگن رہنے کی وجہ سے پڑھاکو سی ہو گئی تھی۔بلاول کو ڈر سا تھا کہ کہیں یہ خبطی سی لڑکی اُ س کیلئے مسائل نہ کھڑے کر دے ، مگرحقیقت یہ تھی کہ فائزہ کا رنگ قدرے سانولا سا تھا اور بلاول تو ’’چٹی کڑی ‘‘ کے لئے مچل رہا تھا تو اُس کی اماں نے ’’ چاند سی بہو‘‘ تلاش کر دی تھی ، مگر وہ چاندی سی دلہن اب نیچے کچن سے کھانا اُوپر چھت پر لے جاتی اور چھت پر پرندوں کیلئے رکھ دیتی تھی اور بلاول کے آنے کے بعد باہر سے کھانا منگو الیتی۔
بلاول تو اب پورا بیوی کا غلام ہو چکا تھا مگر جب اقراء نے ہمسائی سے نا مردانگی والی بات کہی تھی تو وہ’’ادھ موا‘‘ سا ہو گیا تھا اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اُ س سے کہاں غلطی ہوئی ہے کہ اب اقراء یہاں تک پہنچ گئی ہے۔
اُس تک خبریں پہنچ رہی تھیں کہ فائزہ اب پہلے سے زیادہ دلکش ہو گئی ہے اور پڑھائی کے ساتھ اب اُس کے رویے میں بہت بہتری ہو گئی ہے، مگر اب وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہو چکاتھا۔
اُس نے اپنی شادی سے قبل بھی فائزہ سے شادی سے انکار کر دیا تھا کہ تب وہ کچھ خاص کام نہیں کر پا رہا تھا مگر دلی طور پر وہ اب اُس کے حسین سراپے سے مرغوب ہو چکاتھا اُس نے سوچا ہوا تھا کہ وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس قدر ’’پری چہرہ‘‘ کو اپنے جیون ساتھی کے طور پر اپنا سکے۔
بلاول کے والدین نے منہ پر ہی انکار نہیں کر دیا تھا اُنہوں نے فائزہ کے والدین کو ایک خاتون کے ذریعے مناسب الفاظ میں انکار کی وجوہات بیان کر دی تھیں تاکہ وہ اس انکار کو دل پر نہ لیں ، اُن میں خوف خدا بہت تھا،فائزہ کے لئے خاندان ہی میں ایک رشتہ آگیا تھا اُس کی شادی وہاں ہو گئی تھی۔
بلاول نے کسی شادی میں اقراء کو دیکھ لیا تھا۔تب ہی اُس نے اقراء کو دیکھتے ہی حامی بھر لی تھی اور فوری نکاح بھی ہو گیا تھا،مگر بعد میں جو ہو رہا تھا وہ ایک ایسی کہانی تھی جو کہ ہر دوسرے گھر میں دہرائی جا رہی تھی۔
اقراء نے سسرالیوں کا جینا حرام کر کے رکھ دیا تھا، مگر نامردانگی والی بات نے بلاول کو فوری فیصلے کی طرف مائل کر دیا تھا۔
اُ سکے بس میں اب کچھ نہیں رہا تھا اُس نے تو زن مریدی کی ہر حد پار کر دی تھی کہ اُ س نے اپنے کمرے کی صفائی سے لے کر برتن تک دھونے میں بیوی کا ساتھ دیا تھا، وہ جتنا گھر والوں کے سامنے ذلیل ہو رہا تھا،اقراء اُتنا ہی اُس کے ذہن پر سوار ہو رہی تھی۔
بلاول کی نا مردانگی والی بات تو غلط ثابت ہو چکی تھی کہ وہ ایک بچے کی ماں بھی بن گئی تھی مگر وہ بلاول کے گھر میں رہنے کو تیار نہیں تھی۔بلاول کو دوسری طرف کاروبار میں بھی کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ، وہ مجبور ہو چکا تھا کہ اقراء کو طلاق دے دے اور اپنی جان بخشی کروائے۔مگر بھاری حق مہر ادا کرنا بھی بس سے باہر ہو رہا تھا۔
ایک دن بلاول نے اقراء کو کسی نوجوان کے ساتھ ایک بڑے ہوٹل کے گیٹ سے باہر نکلتے دیکھ لیا تو اُ س کا دل بہت غمگین سا ہو گیا تھا، وہ اُسی ہوٹل میں ایک کاروباری ڈیل کے حوالے سے آیا تھا،اُسی روز اُس نے سوچ لیا تھا کہ اب اقراء کے ساتھ جینا بے ایمانی کی بات ہے، اس نے اقراء کو خلع لینے کا کہاتا کہ وہ حق مہر ادا کرنے سے بچ سکے۔
مگر اُس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا کہ وہ بلاول کو ذلیل و رسوا کرنا چاہتی تھی ۔وہ جانتی تھی کہ اُ سکے حالات خراب ہیں۔
بلاول نے کسی نہ کسی طرح سے قرض لے کر اُس کا حق مہر ادا کرنے کا بندوبست کرلیا تھا اور ایک دن اقراء کو طلا ق دے دی۔
مگر طلاق دینے کے دو سال بعد تک بھی وہ اس صدمے کو برداشت نہیں کر سکا تھا کہ وہ ذہنی طورپر بہت ہی زیادہ پریشان ہو گیا تھا۔
اس پریشانی میں زیادہ اضافہ تب ہو گیا تھا جب اُسے معلوم ہوا تھا کہ اقراء کی وہاں شادی ہو رہی ہے جہاں وہ تین سال قبل کرنا چاہ رہی تھی۔بلاول نے سب کچھ بھول کر کاروبار میں دل لگا لیا تھا اور اُس نے کاروبار میں ایمان داری سے کام کیا تو دن رات ایک کرنے کا صلہ یہ ملا کہ پرانے سب قرض اُتر گئے اور وہ سکون کے ساتھ والدین کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگا ۔مگر یہ سوچ ہر پل اُسے عذاب دیتی ہے کہ کیا کسی کو بدنام کر کے اور رسوا کر کے سکون سے جی سکتے ہیں؟