میر تقی میر نے کیا خوب کہا تھا:
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔ اس شعر میں اگر تھوڑی سی ترمیم کرکے یہاں دلی کی جگہ کراچی کردیا جائے تو پھر بھی یہ حسب حال ہی ہوگا۔ جیسے جیسے میرے شہر کی “بزم” اجڑتی جارہی ہے ویسے ویسے ہی مجھے “بزم کہکشاں” بھی شدت سے یاد آنے لگی ہے۔۔یہ بزم کہکشاں مجھے اس کراچی کی یاد دلاتی ہے جب یہ شہر کوئی اجڑا دیار نہیں تھا۔ یہاں کی راتیں جاگتی تھیں اور محبت کے شگوفے کھلا کرتے تھے۔ جہاں نفرت عام نہ تھی اور جہاں زندگی عذاب نہ تھی۔۔ یہ میرے بزرگوں کی یادگار ہے ۔۔ آج سے پانچ دہائی قبل شہر قائد کے کچھ نوجوانوں نے اس کی بنیاد ڈالی تھی۔۔ اس وقت کا کراچی ایسا ہی تھا۔ نہ نفرت انگیز نعرے تھے اور نہ ہی کفر کے فتوے تھے۔۔ادبی محفلیں عام تھیں ۔۔ نوجوانوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف نہیں قلم ہوا کرتا تھا۔۔نظریاتی اور سیاسی اختلافات کے نام پر ایک دوسرے کے گلے نہیں کاٹے جاتے تھے بلکہ ان پر علمی بحث ہوتی تھی ایک دوسرے کے نظریات پر گفتگو ہوتی تھی باقاعدہ مکالمہ ہوا کرتا اور ایک تہذیب کے ساتھ اہنی بات دوسرے تک پہنچائی جاتی تھی۔۔ بزم کہکشاں بھی ایسی ہی تھی۔۔ اس میں ہر مسلک کے ماننے والے لوگ شامل تھے۔ ان کے سیاسی نظریات بھی مختلف تھے۔۔ کوئی مولانا مودودی کو اہنا امام سمجھتا تھا تو کوئی بھٹو کے اسلامی سوشلزم کا پیروکار تھا۔کوئی مولانا نورانی کے نظام مصطفی کے منشور کا پرچارک تھا تو کوئی اصغر خان کو اہنا رینما مانتا تھا لیکن ان میں قدر مشترک یہ تھی کہ یہ سب وسیع المطالعہ لوگ تھے اور انہوں نے تعلیم محض نوکری کے حصول کے لیے حاصل نہیں کی تھی۔۔مقصود عالم صدیقی مرحوم، سلیم صدیقی مرحوم، اعجاز احمد مرحوم، فضل الرحمن فضلی،انجم عباس، ظہیر الحسن، سید عبدالقدوس، احمد اللہ صدیقی ،شاہد کاظمی، عبدالولی اور ساجد صاحب سمیت نجانے کتنے نام تھے جو اس بزم کے جگمگاتے ستارے تھے۔۔یہ کوئی بڑے ادبی نام نہ سہی لیکن یہ اس کراچی کی پیچان تھے جو اہنی وسعت القلبی کی وجہ سے پیچانا جاتا تھا۔ان کے پاس نہ وسائل تھے اور نہ ہی کوئی حکومتی امداد لیکن اس کے باوجود انہوں نے اہنے زور بازو پر شہر قائد کی علمی اور ادبی سرگرمیوں میں اہنا حصہ ڈالا۔ ہرماہ ادبی محفلوں کا انعقاد ہوتا، اپنی تازہ تخلیقات پیش کی جاتیں اور ان پر باقاعدہ بحث کی جاتی۔۔ جون ایلیا نے کہا تھا کہ ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی لیکن اس وقت یہ مسئلہ نہیں تھا اس وقت بات کہی بھی جاتی تھی اور بات سنی بھی جاتی تھی۔۔یہ کراچی کے وہ گمنام ہیرو تھے جنہوں نے صرف یہاں کی ادبی محفلوں کو جلا نہیں بخشی بلکہ یہاں کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کوششیں کیں ۔یہاں فضل الرحمن فضلی صاحب کے نیو کراچی میں واقع اسکول کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی جہاں کئی دہائیوں تک ماہانہ ایک روپے فیس پر بچوں کا مستقبل تابناک کیا جاتا رہا اور یہاں سے فارغ التحصیل نجانے کتنے طالب علم آج زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑھ رہے ہیں۔۔مقصود عالم صدیقی مرحوم ،انجم عباس اور بزم کہکشاں کے دیگر ارکان دوسرے شہروں سے کراچی آنے والے لوگوں کے لیے سائبان کا کردار ادا کرتے رہے اور انہیں زندگی کی دوڑ میں کامیاب کرانے کے لیے اپنے کاندھے ان کو پیش کردئے۔۔ یہ بزم کہکشاں کراچی کا حقیقی چہرا تھی۔۔ اس شہر پر جب نفرت کے سائے گہرے ہونے لگے تھے تو اس وقت بھی اس بزم نے اہنی کاوشوں کو جاری رکھا لیکن یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مترادف تھا لیکن یہ آتش نمرود میں اپنے حصے کا پانی ضرور ڈالتے رہے۔۔۔ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا۔۔روشنیوں اور محبت کا شہر بھی بدل گیا ۔۔ یہاں نفرت محبت پر حاوی ہوگئی۔۔ لوگ زبان،نسل اور فرقے کی بنیاد پر قتل ہونے لگے۔۔۔اسی طرح وقت کے ساتھ بزم کہکشاں کے ستاروں کی روشنی بھی مدہم پڑنے لگی۔۔بزم کہکشاں کے بہت سے ارکان انتقال کرچکے ہیں اور جو بقید حیات ہیں آج وہ اپنی بزم کے پچاس سال مکمل ہونے پر اپنے شاندار ماضی کے کھنڈر کو دیکھ کر ایک آہ بھر کر رہ جاتے ہیں۔۔آج جب میں قومی دنوں پر مہوش حیات، علی ظفر اور ان جیسے نجانے کتنے ناموں کو قومی اعزازات پاتے دیکھتا ہوں تو بے اختیار یہ خیال آتا ہے کہ اس ملک اور قوم کی سہی معنوں میں خدمت کرنے والے ان گمنام ہیروز کی خدمات کا اعتراف کب کیا جائے گااگر ہم نے فضل الرحمن فضلی،انجم عباس،سید عبدالقدوس، ظہیر الحسن،احمد اللہ صدیقی،شاہد کاظمی،عبدالولی اور ساجد صاحب جیسی شخصیات کو فراموش کردیا تو یہ بحیثیت قوم ہمارا خود پر بہت بڑا ظلم ہوگا کیونکہ ہمیں آج “رزم” نہیں “بزم” کی ضرورت ہے۔