مہنگائی نہ ہو تو ملک دیوالیہ ہوجائے!!!؟

مہنگائی مہنگائی کا رونا ہے ، کہاں ہے مہنگائی ؟ سب ویسا ہی چل رہا ہے ؟ یہ مہنگائی پچھلی حکومتوں کی کرپشن کی وجہ سے ہے ؟ یہ مہنگائی نہ ہو تو ملک دیوالیہ ہو جاتا ۔

آپ تبدیلی کے نشے میں دھت پڑے کچھ لوگوں کو سوشل میڈیا پر ایسے دلائل دیتے پائیں گے ۔

پھر جب کچھ نہیں بچتا تو کہتے ہیں زرداری اور نواز شریف سے تو نیازی بہت بہتر ہے ۔

صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے لیے 33 بلٹ پروف گاڑیاں منگوانے کے پیسے ہیں اور عوام مہنگائی کا رونا روتی ہے ، دو اکتوبر کو بلٹ پروف گاڑیوں کی امپورٹ سے کابینہ نے پابندی ختم کی اور چار اکتوبر کو یہ کابینہ نے وزیراعظم اور صدارتی ہاؤس کے لیے اجازت دی ، غریب کے لیے جاپانی سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں منگوانا مشکل ترین کردیا گیا ہے ، کیونکہ مقامی گاڑی ساز کمپنیز کو آزادی ہو جیسی بھی گاڑی بنائیں اور کسی بھی قیمت پر بیچیں ۔

بیچارا نیازی کیا بہتر ہوگا ایک ایس ایس پی وہ اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کرسکتا وہ بیچارا اتنی صلاحیت نہیں رکھتا کہ زرداری اور نوازشریف سے برا بھی ثابت ہوسکے ۔

پتہ نہیں پنجاب میں کتنے آئی جیز بدل گئے روز ہی بیس بیس گریڈ کے افسران استعفیٰ دے رہے ہیں ۔

لوگ ساہیوال اور صلاح الدین کیس بھولتے نہیں پھر کوئی واقعہ ہو جاتا ہے ، پتہ نہیں موٹروے واقعہ کا ملزم اس حکومت کو پیارا ہے یا واقعہ کا اسکرپٹ کمزور تھا جس کی وجہ سے پیمرا نے اس واقعہ کا ذکر کرنے سے چینلز کو روک دیا ، لگتا ہے ایٹمی اثاثوں جیسا کوئی اہم معاملہ ہے ۔

بات ہو رہی تھی مہنگائی کی ۔۔۔۔

یہ پہلی بار ہم دیکھ رہے ہیں کہ دوائیوں کی قیمت صرف اس لیے بڑھا دی گئی کیونکہ یہ دستیاب نہیں ہو رہی تھیں ، تو دستیابی کے لیے محنت کرنے سے بہتر اس نااہل کابینہ کو آسان یہ لگا قیمت بڑھا دو ، اس حکومت نے آسان سا فارمولا یہ سوچ لیا ہے کہ پہلے کسی چیز کی قلّت کردو جب عوام اس قلّت کی وجہ سے بلبلانے لگیں تو قیمت بڑھا کر مارکیٹ میں دستیاب کردو ۔

یہ جو قلّت اور قیمتوں کا کھیل ہے یہ دنیا کی محفوظ ترین کرپشن کہلاتی ہے اس کو کسی کا باپ نہیں پکڑ سکتا ہے ، دنیا کے کسی بھی ملک میں اس کام کے لیے ادائیگی ہوتی ہے اور وہ پاپا جونز کی شکل میں ہو ، چاہے مہنگے ولاز کی شکل میں ہو ، یہاں تک کے بچوں کی بیرونِ ملک تعلیمی اخراجات کی فیس بھی ادا کی جاتی ہے جو پاکستانی کروڑوں میں ہوتی ہے ، بہت سے طریقے ہیں ، رشوت دینے والے ملز اونرز یا ذخیرہ اندوز ان وزراء ، معاونین ،مشیران ، سیکریٹریز کی بیویوں ، بہنوں ، بیٹیوں کے بوتیک ، آرٹ اینڈ کرافٹ اسٹورز سے ٹکے کے آئیٹم کروڑوں میں خریدتے ہیں اس خریداری کو بھی کوئی نہیں پکڑ سکتا ۔

آرٹ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے ۔ (یہ میرا ذاتی تجربہ ہے بارہ تیرہ سال پہلے ایس بی سی اے کے افسر کی بیگم کے بوتیک سے پانچ سو کے کرتے اور سینڈلز ہمارے کلائنٹ نے تین لاکھ کے لیے تھے۔ یاد رکھیے ہمارا ایک مرحوم لیڈر کہتا تھا “مہنگائی بڑھے تو سمجھو کرپشن ہو رہی ہے ، ڈالر بڑھے تو کرپشن ہو رہی ہے “

اس مرحوم لیڈر کی کاپی آج کل وزیراعظم ہے اور ہر دور میں کسی نہ کسی حکومت میں کابینہ کا حصہ رہنے والے اس کے وزیر ہیں اور سر پر وہی پاکستان کے والی وارث قابض بوٹ والے ان سب کے باپ ہیں .

حصہ
mm
صہیب جمال نے لکھنے لکھانے کی ابتداء بچوں کے ادب سے کی،ماہنامہ ساتھی کراچی کے ایڈیٹر رہے،پھر اشتہارات کی دنیا سے وابستہ ہوگئے،طنز و مزاح کے ڈرامے لکھے،پولیٹکل سٹائر بھی تحریر کیے اور ڈائریکشن بھی کرتے ہیں،ہلکا پھلکا اندازِ تحریر ان کا اسلوب ہے ۔ کہتے ہیں "لکھو ایساجو سب کو سمجھ آئے۔