میری تو دعائیں ہی قبول نہیں ہوتیں

اِنسانی زندگی قوانین فطرت، شریعت خداوندی اور معاشرتی اُصولوں کی ہمیشہ سے مرہون منت رہی ہے اور رہے گی، یہ سلسلہ ازل سے چلا آ رہا ہے اور شاید ابد تک چلتا رہے گا۔ صلاحیتوں کی تقسیم یکساں نہیں اور اس لئے ہر جاندار کم از کم وہ ا سکلز ضرور سیکھتا ہے جس سے اس کی بقاء قائم رہ سکے۔ کسی میں کوئی ہنر تو کسی کو کسی شئے میں مہارت، کسی کا طریقہ کار کچھ اور تو کسی کی جدّت کچھ اور۔

اِنسان، جانور، فرشتے، جن اور نباتات سب اِسی اصول کے تحت چلتے ہیں۔ کوئی فرشتہ بادلوں اور اور بارش پر مقرر تو کسی کے ہاتھ زمین و زلزلے، کوئی صور پھونکنے پر مقرر تو کوئی رزق کی تقسیم پر کارفرما۔ کسی جانور کو تیرنا آتا ہے تو کوئی اُڑ سکتا ہے، کوئی گھونسلہ بناتا ہے تو کوئی زیرزمین بل، کوئی دریا پر پُل تعمیر کر سکتا ہے تو کوئی جالا بن سکتا ہے۔

صلاحیتوں کی اِسی ارتقائی تقسیم نے بارٹر سسٹم کی بنیاد رکھی اور اِنسان میں مسابقت کو فروغ دیا کہ ایک آدمی کسی کام کو احسن طریقے سے انجام دینا سیکھ لے تو دوسرے اس کی خدمات معاوضے کے بدلے حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اِسی طرح ہوتا ہے، کوئی موچی تو کوئی ترکھان، کوئی سنہار تو کوئی لوہار، کوئی مستری تو کوئی مالی، کوئی درزی تو کوئی رنگریز یا کاشتکار۔

اِنسان میں کوئی صلاحیت موروثی ہوتی ہے تو کسی کے لئے اس کا مزاج، ماحول یا جسمانی ساخت مناسب ہوتی ہے تو کچھ صلاحیتیں وہ آگے بڑھنے کے لئے سیکھتا ہے اور یوں ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی صلاحیت کا شہسوار ہو جاتا ہے اور پھر اسی صلاحیت یا پیشے سے پہچانا جانے لگتا ہے۔

آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ کو کیا کام آتا ہے؟ اور اس جیسے درجنوں سوالات ہم روزمرہ زندگی میں معمول کے مطابق پوچھتے ہیں، سب کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ آخر آپ میں وہ کیا صلاحیت ہے جو آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے یا کم از کم اس بات کی ضمانت ٹھہرے کہ آپ زندگی میں کچھ کر سکنے کے قابل ہیں۔

بڑے بوڑھے شادی بیاہ، خاندانی تقریبات اور گھریلو محفلوں میں یہ پوچھتے پائے جاتے ہیں کہ بیٹا، بیٹی آپ کو کیا آتا ہے، جواب کچھ یوں ملتا ہے کہ انکل میں انجینئر ہوں، میں آرکیٹیکٹ ہوں، مجھے پروگرامنگ آتی ہے، مجھے پیسہ کمانا آتا ہے، مجھے بزنس آتا ہے، میں سیلز پروفیشنل ہوں اور کچھ بھی بیچ سکتا ہوں وغیرہ، ایک ظالم ڈاکٹر صاحب ملے، کسی نے پوچھ لیا کہ آپ کیا کرتے ہیں تو کہنے لگے میں مریضوں کو اچھا کرتا ہوں، آخر وہ تو صرف اپنے علم و تجربے کی بنیاد پر مرض کی تشخیص کرکے دوا دے سکتے ہیں، شفاء تو منجانب اللہ ہے۔

نام نہاد کامیابی، ترقی اور صلاحیتوں کی اس دوڑ میں بہت سی بنیادی صلاحیتیں، اقدار و اُصول ہم یکسر بُھلا بیٹھتے ہیں یا نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر وہ شخص کامیاب ٹھہرا جو پیسہ کما سکے۔ ہر بڑے آدمی کی بڑائی کا تناسب اس کے پاس موجود دولت اور مزید کمانے کے ذرائع سے بالواسطہ جوڑ دیا گیا۔

کیا وہ بڑا آدمی نہیں ہو سکتا جسے سچ بولنا آتا ہو، جو مسکرا سکے، جو نباہ سکے، جو علم حاصل کرتا رہے، جو اُردو اچھی بول سکے، وہ شخص کامیاب کیوں نہیں جسے گھر بسانا آتا ہو، وعدہ نبھانا آتا ہو، وفا شعاری جس کی صفت ہو۔

مندرجہ بالا صلاحیتوں کی طرح دعا مانگنا بھی ایک صلاحیت ہے جو موروثی بھی ہوتی ہے (کہ کچھ لوگ نسلوں سے مانگتے چلے آتے ہیں)، حالات و مزاج کی مناسبت سے بھی پروان چڑھتی ہے اور سیکھی بھی جا سکتی ہے، بس صرف توجہ اور محنت کی ضرورت ہے۔

آپ نے وہ دس ہزار گھنٹوں والا نظریہ تو سُنا ہو گا کہ کسی بھی فیلڈ میں دس ہزار گھنٹے لگا دو تو آپ اس کے ماہر بن جاتے ہیں اگر آپ روز کا ایک گھنٹہ اللہ کی یاد میں لگاتے ہیں تو قریباً 30 سال میں اس تعلق کو دس ہزار گھنٹے دیں گے یعنی بلوغت کے بعد مسلسل 30 سال لگائیں تو 40 کی عمر تک پہنچنے میں کچھ بزرگی آ جائے گی مگر اس صلاحیت پر کوئی نہ توجہ دیتا ہے نہ بات کرتا ہے۔

میرا ایک دوست ہے عبداللہ، اس نے اُردو میں CV بنائی ہوئی ہے اور بنیادی صلاحیتوں میں لکھا ہے: دعا مانگنا، وفا شعاری، احباب شناسی، وعدے کی پاسداری، احسان کا بھرم، اور صداقت، جب بھی اس سے کوئی پوچھتا ہے کہ میاں تمہیں کیا آتا ہے؟ تو وہ فوراً جواب دیتا ہے کہ دعا مانگنا۔

بڑا عجیب آدمی ہے، کہتا ہے کہ جھوٹ بولنا بھی ایک صلاحیت ہے جو خدا کسی کسی کو نہیں بھی دیتا۔ ایک دن کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب جتنی آسانی سے لوگ جھوٹ بول لیتے ہیں اتنی آسانی سے میں سچ بھی نہیں بول پاتا، اللہ کی طلب ساکت کر دیتی ہے، بندہ نہ گناہ کا رہتا ہے نہ ثواب کا۔

بندگی کا شور جب اندر سے اُٹھتا ہے تو باہر کی دنیا خاموش ہو جاتی ہے، ایسے میں بولے کون؟ بندگی کی چمک اعمال میں نظر آتی ہے مگر جو لوگ جھوٹ بولتے ہیں انہیں نہیں دِکھتی۔ جھوٹ ہمارے معاشرے میں پسند کیا جاتا ہے کیونکہ جتنی خوشامدیں، تعریفیں، دعوے جھوٹ میں کہے جاسکتے ہیں۔ سچ تو اس کے جواب میں گونگا ہی لگتا ہے۔

میرے اِس دوست کی اکثر لوگوں سے لڑائی ہو جاتی ہے، جب اس سے کوئی کہتا ہے کہ ہماری تو دعائیں ہی قبول نہیں ہوتیں تو یہ سیخ پا ہو جاتا ہے۔ کہتا ہے شرم کرو، خدا پہ بہتان لگاتے ہو، دعا مانگی ہی کب ہے؟ مانگا ہی کیا ہے؟ مانگنا کہتے کسے ہیں؟ مانگا کیسے جاتا ہے؟ کس سے مانگ رہے ہو؟ کیا مانگ رہے ہو؟ کچھ نہیں پتہ اور میرے اللہ پہ جھوٹ باندھتے ہو۔ اب آپ خود بتائیے کون ایسے جملوں کو برداشت کرے گا۔

ایک دن میں نے بڑے لاڈ سے اس سے کہا، یار عبداللہ میں تو تیرا دوست ہوں نا مجھے سکھا دے، دعا کیسے مانگتے ہیں تو کہنے لگا دعا تو نخرہ ہے جو محبت کرنے والوں کے بیچ میں ہوتا ہے، پریشانی میں تو بھیک مانگی جاتی ہے، دعا تو بے فکری میں مانگی جاتی ہے، بے فکری اس یقین کا نام ہے جو مالک کے پاس رہ کر ہوتی ہے، بندہ اللہ سے دور جائے ہی کیوں، اللہ کے آس پاس رہنا چاہئے، جب چاہے کوئی کام لے لے۔

دعا کی پریکٹس کرنی چاہئے کہ اب جب اللہ سے نماز میں یا تہجد میں ملاقات ہوگی تو یوں عرض کروں گا، ایسے بات شروع کروں گا، ایسے ختم کروں گا، ایسے دیکھوں گا، ایسے رونے کی اداکاری کروں گا۔ آپ کی اگر بادشاہ، وزیراعظم یا صدر سے ملاقات طے ہو جائے تو آپ کتنی بار اپنی گفتگو کی پریکٹس کرتے ہیں، کتنی بار آئینے کے سامنے بولتے ہیں، ذہن میں بار بار سچوئیشن کی فلم چلاتے ہیں کہ کوئی جملہ اِدھر سے اُدھر نہ ہو جائے۔

دعا کم از کم سو بار مانگنی چاہئے اور پوری ہو جائے تو ہزار بار شکر کہ ہم اِس قابل نہیں تھے، ان کا کرم ہوا کہ عنایت ہو گئی اور اگر سو بار نہیں مانگ سکتے تو قبول نہ ہونے کا رونا نہیں رونا چاہئے، یہاں تو پتہ نہیں لگتا کہ نماز کے بعد دعا پہلے مانگی ہے یا ہاتھ چہرے پر پہلے پھیرے ہیں اور شکوہ یہ کہ قبول نہیں ہوتی۔

یہ 100 کوئی بڑا نمبر نہیں ہے۔ ایک چھوٹا بچہ صرف ایک دن میں 400 بار کم از کم ماں کو پکارتا ہے، کس لئے، ایک آدھ ڈبل روٹی، دودھ کی فیڈر یا گلے لگنے کے لئے؟ ایک عام اِنسان زندگی میں 70 لاکھ مرتبہ ماں کو پکارتا ہے، اپ سچن ٹنڈولکر کو دیکھ لیں، اُس نے کرکٹ کی تمام فارمیٹ یعنی ون ڈے، ٹیسٹ، لیگ، ٹی ٹونٹی اور فرسٹ کلاس میں کل ملا کر 84،076 رنز بنائے اور 168,152 گیندیں کھیلیں، نیٹ پریکٹس کی گیندیں شامل کریں تو 23 سال کے عرصے میں 1،681،520 گیندیں کھیلیں۔ ایک بلے باز کی خواہش گیند باؤنڈری پار پہنچانا ہوتی ہے یعنی چوکے اور چھکے۔ اس نے 2،282 مرتبہ یہ کام کیا۔ یعنی ایک باؤنڈری کے لئے کوئی 736 گیندیں (پریکٹس شامل کرکے.) آپ وسیم اکرم کو دیکھیں، 20 سال کے کیئریئر میں 120,810 گیندیں پھینکیں، نیٹ پریکٹس کے ساتھ تقریباً 12 لاکھ، 2,839 وکٹیں لیں یعنی ایک وکٹ کے لئے 422 گیندوں کی پریکٹس۔

اور دعا کی وقعت آپ کے نزدیک ایک چھکے یا وکٹ کے برابر بھی نہیں۔ اللہ کو اتنی بار بھی نہیں پکار سکتے جتنا دن میں ایک 3 سال کا بچہ ماں کو پکارتا ہے۔ بھئی، اللہ کیوں نہیں دے گا، اس سے آپ کی کیا دشمنی ہے۔ اس نے خود کہا ہے کہ میں شہ رگ سے قریب ہوں، ماں سے زیادہ چاہتا ہوں، مجھ سے مانگو اور خبردار کسی اور سے نہ مانگنا، میرے اختیار میں سب کچھ ہے، میرے خزانے میں کوئی کمی نہ ہو گی، مانگو۔

اب وہ خود ہی مانگنے کا کہیں، خود ہی بُلائیں، کسی اور سے مانگنے کا منع کر دیں اور پھر بھی نہ دیں، یہ نہیں ہو سکتا، صرف تعلق کی بات ہے، صحیح، غلط کا فیصلہ تو مفتی صاحب کریں گے یہ کہ دنیا کا نظم و ضبط قائم رہے مگر جسے اس نے دینا ہوتا ہے نا، بس دے دیتا ہے۔

آپ چھوٹے بچے کو دیکھیں، وہ جب روتا ہوا ماں کے پاس آتا ہے تو وہ اُسے گلے لگا لیتی ہے اور بڑے بچوں کی ڈانٹ اور مار پڑتی ہے۔ بہت مرتبہ شرارت چھوٹے کی ہی ہوتی ہے مگر وہ پہلے روتا ہوا آ گیا اور گلے لگ گیا، ماں کو پتہ لگ بھی جائے تو بھی وہ کچھ دے دلا کر جان چھڑائے گی مگر کسی کے حوالے اپنا بچہ نہیں کرے گی۔

آپ کو کس نے منع کیا ہے، آپ بھی روتے ہوئے چلے جائیں اللہ کے پاس، آپ بھی پہل کر دیں، قدرت جب کسی کا ساتھ لینے کی ٹھان لے تو وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتی، کیا صحیح کیا غلط، جسے رب نے اپنا کہہ دیا، دنیا و کائنات اس کی ہوئی۔

آپ انبیائے کرام علیہ السلام کی دعائیں پڑھیں، ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور آپ نے معاف نہیں کیا تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے، بڑی تکلیف آ پہنچی اور آپ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں، جو چاہے دے دے، ہم تیرے فقیر ہیں، اور جب 950 سال کی محنت کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کا دل بھر آیا اور انہوں نے کہا کہ انہیں دیس نکالا دے، انہیں گمراہی میں اور بڑھا تو قدرت نے سائیڈ لے لی۔ ارضیاتی ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا میں 40 کروڑ سے لے کر 20 ارب تک کی آبادی تھی۔ اللہ نے سات آٹھ لوگوں کو ایک طرف کر دیا اور کم از کم 40 کروڑ انسان اور 100 ارب جانوروں کو غارت کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا میرا رب میری مدد کرے گا تو فرعون اپنی فوج سمیت غرق ہو گیا۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، اللہ نے کب ساتھ نہیں دیا، کبھی ابابیلیں بھیجیں تو کبھی پتھر برسائے، کبھی ہوائیں بھیجیں تو کبھی سمندر چاک کر دیئے، کبھی بدر و احزاب میں فرشتے اُتار دیئے تو کبھی پانی نکال دیا، کبھی دل جوئی کے لئے سونے کی ٹڈیاں برسا دیں تو کبھی پورا ملک حوالے کر دیا اور پھر بھی ہم بے وفا نکلے۔

بچہ جب باپ کے ساتھ جاتا ہے تو اسے پہننے اوڑھنے، کھانے پینے کی فکر نہیں ہوتی، کوئی پھٹے کپڑے اور بھوکے تن کو دیکھ کر بچے پر طعنے نہیں کسے گا، سب باپ سے پوچھیں گے۔ اللہ کو ماننے والے، اس پر یقین رکھنے والے، اس سے دعا مانگنے والوں کو دنیا کے طعنوں کا ڈر نہیں رہتا، وہ بہت مہربان ہے، قدردان ہے، کیا وہ آپ کی نہیں سُنے گا؟

اجی چھوڑیئے، یہ پڑھنا لکھنا، جائیے جا کر مانگئے، اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دیجئے، اس کے انبیاء علیہ السلام کا صدقہ مانگئے، بھول جائیے اپنے گناہ اور بھول جائیے اپنی نیکیاں، مانگئے میرے رب سے اس کی رحمت کے طفیل، یہ آسمان، یہ چاند تارے، یہ ندی آبشار، یہ دریا و پہاڑ، یہ باغ و بہار، یہ چرندپرند ان کا بھی کوئی رب ہے کہ نہیں۔ اُس رب سے اُسے مانگ لیں، اس کی پناہ میں بیٹھ جائیں، بے شک اسکی پناہ بڑی چیز ہے، اس کے سامنے رہیئے، اب جس حال میں رکھے، دنیا اور اس کے بیچ میں سے خود کو نکال لیں۔ رب جانے اور رب کے بندے۔

عبداللہ خاموش ہوا تو میری آنکھیں ٹپک رہی تھیں، میں نے کہا معاف کرنا یار، آئندہ نہیں کہوں گا کہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ کہنے لگا ڈاکٹر صاحب ڈرنا چاہئے ایسے لوگوں سے جو کسی حادثے یا بہانے سے اللہ کے پاس چلے گئے اور واپس آنا بھول گئے۔ جب قدرت سائیڈ لے چکے تو کرلے جو دنیا نے کرنا ہے۔

حصہ
ذیشان الحسن عثمانی ایک منجھے ہوئے قلم کار،کسک،جستجو کا سفر،فل برائٹ اورآئزن ہاور فیلوسمیت متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ معاشرتی وسماجی، کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور دیگر متنوع موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں اور ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسرکے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں