میری خالا نے ایک ہفتہ قبل امی سے کہا کہ آپا ناصر کو کہیں کہ باہر کسی کی دی ہوئی چیزیں کھانے سے احتیاط کرے آج کل کسی کا کچھ بھروسا نہیں کہ کچھ ملا کر کھلا دے۔
میری دوست سیدہ بینش ہدی ہاشمی کے بھائی اسی حوالے سے بھائی کے لیے پریشان رہے۔
ایک ہفتہ قبل میری تایا زاد بہن نے خواب میں بھائی کی شہادت دیکھی۔
میں نے کچھ ماہ قبل خواب دیکھا کہ بھائی کو کوئی بہت اونچا عہدہ ملا ہے اور ایک جم غفیر انھیں بگھی میں بٹھا کر نعرے لگاتا ہوا لے جا رہا ہے۔
غرض کہ اس طرح کی کیفیات ہوئیں اور خواب دیکھے گئے۔
بھابھی یوں تو بہت تعاون کرنے والی ہیں مگر حالت کی سنگینی سے گھبراتی بھی ہیں اور اکثر بھائی کے حوالے سے خدشات کا شکار رہتی ہیں کہ دشمن کہیں کچھ کر نہ دے۔
بڑی بہن بھی بہت زیادہ پریشان رہتی ہیں کہ بھائی کو اپنا ذرا خیال نہیں۔
اب ہم بہنیں مل کر پلاننگ کر رہی ہیں کہ بھائی کو کہیں کہ اب اپنی دکان بولٹن سے بابر مارکیٹ شفٹ کر لیں’تاکہ کچھ آرام مل سکے۔مگر ابدی آرام بھائی کا منتظر تھا سو وہ کشاں کشاں دل پسند عیش حاصل کرنے رب کی جنت کی طرف روانہ ہوئے۔
بس بھابھی سمیت ہم سب کو بھائی کے آرام کی فکر ہے بہت تھک جاتے ہیں بھائی،کمزور بھی ہوگئے ہیں لیکن صرف جسمانی طور پر ورنہ وہ ایک قوی مومن ہیں اور ان کی ایک للکار سے دشمن کانپ اٹھتا ہے،دوست مسکرانے لگتے ہیں۔
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
بھائی کی زندگی گھر سے نوکری تک،نوکری سے تحریک تک،تحریک سے یوسی کی نظامت تک،یوسی کی نظامت سے برادری تک،برادری سے حلقے کی نظامت اور تحریک تک کام کام اور صرف کام سے عبارت ہے۔وہ اپنے کام کو اپنا جنون بنا کر کام کرتے تھے،دیوانہ وار کرتے تھے امی پیار سے کہتیں بالکل دھنیا جاتا ہے اور وہ کام اور قسمت دونوں کے دھنی تھے۔
اللہ نے انتہائی کم وقت میں ان سے بے پایاں کام لیا جاب پر وہ اچھے عہدوں پر فائز رہے،پیسہ ان کے پاس خود چل کر آتا تھا اور اللہ گواہ ہے کہ پیسے کو انھوں نے ہاتھ کا میل سمجھا۔
انھوں نے اپنی ذاتی رقم سے لوگوں کے بڑے بڑے کام نکالے مگر ایک مشترکہ گھر میں ایک پورشن کے علاوہ ان کا کچھ نہیں ہے اپنا۔
خود کو کسی آرام دہ بستر کا عادی نہیں بنایا’بلکہ ایک سادہ چارپائی کو اپنا بستر بنایا اور اس چارپائی کو وہیں رکھ لیا جہاں وہ اپنے مہمانوں کو بٹھاتے تھے’چارپائی کو جب بنا گیا تو پائپ ہلکا ہونے کی وجہ سے ایک خم سا آگیا تھا جس سے چارپائی ٹیڑھی لگتی تھی۔بھابھی ایک دن کہنے لگیں کہ کب سے کہہ رہی ہوں چارپائی بدلنے کا ایک تو رکھی بھی اس کمرے میں ہے اور وہ بھی ٹیڑھی میڑھی،نعمان بیگ اور فرحان بیگ سب کو یہیں بٹھا لیتے ہیں،میں نے مسکرا کر جواب دیا کہ انھیں تو وہ اپنے بچے سمجھتے ہیں مگر کوئی غیر آئے تو واقعی عجیب لگے گا مگر بھائی نے وہ چارپائی نہ بدلی اور بھابھی کو ہنس کر کہہ دیتے کہ بھئی ہم فقیر لوگ ہیں۔
یاد رہے یہ اس شخص کی بات ہے جو تحریک سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو پروڈکشن مینجر،پلانٹ مینجر،مینجنگ ڈائریکٹر جیسے عہدوں پر فائز رہا۔اور ان عہدوں پر وہ شخص فائز رہا جس نے مالی حالات کی بنا پر بچپن ہی میں ابو کا بازو بننا منظور کیا اور کبھی اسکول اور کالج کی شکل تک نہ دیکھی’پرائیویٹ گریجویٹ اور اپنی محنت اپنے ہی کمائی کے بل پر مختلف کورسسز کیے مگر ذہانت بلا کی تھی۔اس ذہانت کی دلیلیں آج جگہ جگہ بکھری پڑیں ہیں۔
بھابھی نے ایک بار کسی بات پر اپنے مرنے کی بات کی اور کہا کہ خوش نصیب ہوتی ہے وہ عورت جس کا جنازہ شوہر کے کاندھوں پر جاتا ہے تو بھائی کہنے لگے پہلے میں جاؤں گا مجھے اور میرے بچوں کو چھوڑ کر نہ جانا،میں تمھارے بغیر کچھ نہیں کرسکتا اور تمھیں تو ابھی جینا ہے پوتے پوتیاں پر پوتے پوتیاں کھلانے ہیں۔گوکہ کبھی بھابھی کی طبعیت خراب ہوتی تو ان کو ٹھیک کرنے اور معمول کے موڈ پر لانے کے لیے کہتے کیا آخری سانسیں چل رہی ہیں؟بھابھی کو ہنسی آجاتی۔
بھائی وہ شجر سایہ دار تھے جنھوں نے خاندان سمیت اپنے حلقے کو باندھ کر رکھا۔
ان کے متعلق لوگوں کی گواہیاں وہ بھی عام لوگوں کی گواہیاں جن سے بھائی کے کوئی ذاتی تعلقات نہ تھے لکھنا شروع کردوں تو صفحے کے صفحے کالے ہوجائیں مگر حق ادا نہ ہو۔
ایک خاتون کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے نماز پڑھنا ناصر بھائی کی صحبت میں شروع کی،شادی کے بیس سال میں چند سالوں سے روزہ بھائی کے سمجھانے پر رکھ رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ اجتماع اہل خانہ بھی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بچے کہہ رہے ہیں کہ مما پاپا سے اب زیادہ محبت ہوتی جارہی ہے۔بھائی رخصت ہوئے تو ان صاحب کی بچیاں بہت رو رہی ہیں۔
محلے کہ کئی لوگوں کا خود اپنے بارے میں کہنا ہے کہ ہمیں نماز روزے کا نہیں پتا تھا یہ سب ہمیں ناصر بھائی نے سکھایا ہے۔
ایک والدہ کا کہنا ہے کہ ہم ناصر بھائی کے احسانات کبھی نہیں بھول سکتے کہ جب ان کی بیٹی کا گھر کسی بڑی وجہ کے بغیر محض ضد بحث میں ختم ہونے پر پہنچ گیا تھا تو بھائی نے اس مسئلے کو سلجھایا،اب وہ ایک پر لطف زندگی گزار رہی ہے۔
بہن بھائیوں کے بچوں کو وقتا فوقتا جیب خرچ دیتے رہے۔سب کے رزلٹ پر انعام بھی لازمی دیا جائے گا،بہنوں کے بچوں کے اچھے گریڈز آنے پر بھائی اس کو جشن کے طور پر مناتے۔باجی قرآن پاک مع لفظی ترجمہ ختم کر لیں گی تو دعوت ہوگی،سمیرا کچھ لکھ لے گی تو انعام ملے گا۔
غرض کہ سب کو سراہا جائے گا۔
نماز کے لیے جاتے ہوئے سارے کمرے کھنگالتے جو بچہ جہاں ملتا اسے مسجد کا نام بتا کر وہاں پہنچنے کا کہتے۔اجتماع اہل خانہ کا اہتمام کرتے،اجتماعی مطالعہ بھی کیا جاتا یوں بچوں کا رشتہ کتاب سے جوڑا۔
کہنے کو ایک شخص ہے لیکن
پر بھرے خاندان جیسا ہے
لقمان بیگ شہید صاحب کے نوجوان کارکن تھے،تازہ اور گرم خون تھے،شہادت پر اس قدر غمگین تھے کہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔وہ ہر کام سامنے کرنے کے قائل تھے احتجاج کے دوران جب لوگ رینجرز کو دیکھ کر بچ بچ کر نکل رہے تھے وہ سامنے رہے اور رینجرز نے دھر لیا مگر انھیں خود کو بچانا اور باطل سے ٹکرانا نوجوانی ہی سے آتا تھا۔
لقمان بیگ صاحب تین بیٹے اپنی اہلیہ کو سونپ کر شہید ہوئے،بھائی بھی بھابھی کو اپنی تین امانتیں دے کر رخصت ہوئے۔
منافقت کا شائبہ بھی نہ تھا،ہیر پھیر سے غرض نہ تھی سب جانتے ہیں کہ ذاتی مفاد کیا ہوتا ہے؟ یہ وہ جانتے ہی نہ تھے۔دو نمبر لوگوں سے بن جائے ؟ممکن ہی نہیں،ابن الوقتوں سے دوستی؟ہو ہی نہیں سکتی۔
ابھی بھابھی بتارہی تھیں کہ تم جو کچھ لکھتی تھیں وہ وہ مجھے لازمی پڑھاتے تھے۔ایک بار تو میں نے خود سنا تھا جب وہ خوشی کے عالم میں جھوم جھوم کر بھابھی کو میری شاعری سنا رہے تھے۔
میری تایا زاد بہن نے بھی یہی بتایا کہ تمھارے لکھنے پڑھنے بڑے خوش رہتے تھے۔
یہ سچ ہے کہ ہم سب بہن بھائی آج جو بھی ہیں ماں باپ کی دعاؤں حمیرا باجی اور ناصر بھائی کی کوششوں کی بدولت ہیں۔
کتنے عرصے سے یہ خیال آتا رہا ہے کہ کیوں نہ بھائی کے لیے کچھ لکھوں،لازمی تو نہیں کہ جو دنیا میں نہ رہے اسے ہی خراج تحسین پیش کیا جائے زندوں کو بتایا جائے ناں کہ وہ کیا ہیں ہمارے لیے مگر میں بھائی کو شاید پوری طرح کبھی نہ بتاسکی یہ بات۔
جب بھائی نے فاروق ٹیکسٹائل سے استعفی دیا تو فل وین لڑکیاں آئیں اور بھائی کو کہا کہ آپ پلیز واپس آجائیں ایک آپ ہی ہیں جو ہمارے بھائی ہیں باقی سب تو بہت بے عزتی کرتے ہیں۔
سہیل بھائی کہتے تھے کہ وہاں جو کام بھائی اکیلے کرتے تھے ان کے پانچ لوگ مل کر بھی وہ نہیں کر پا رہے۔
کہاں تک سنیں گے کہاں تک سناؤں
کیا کیا سنیں گے کیاکیا سناؤں
ان کے بارے میں جناب معراج الھدی صدیقی نے لکھا ہے کہ
کل اسکی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے
لانڈھی سے جماعت اسلامی کے سابق یوسی ناظم ناصر انصاری گذشتہ رات اچانک ہارٹ اٹیک کے سبب انتقال فرماگئے
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ناصر انصاری بھائی کے انتقال پر ملال پر جسارت کی خبر
ناصر انصاری ایک بہادر خوبصورت وجیہ نوجوان تھا وہ اپنے علاقے میں دعوت و تربیت کیلئے کبھی ہفتہ وار درس قرآن کبھی جلسہ سیرت النبی تو کبھی نوجوانوں کی پکنک ترتیب دیتا رہتا تھا انسانوں سے محبت اسکا طریقہ اور انکی مدد، استعانت، اصلاح و تربیت اسکا شیوہ تھا۔ کو رونا لاک ڈاؤن کے دوران وہ اپنے علاقے کے نوجوانوں کیساتھ سبزی منڈی سے سبزی لا کر انتہائی سستی سبزی کا اسٹال لگاتے اور ہزاروں لوگوں کو راشن فراہم کرکے گھروں کا چولہا جلواتے رہے۔ اسکے علاقے کے نوجوان اسکے ساتھ کھڑے ہوتے تھے اسکے بزرگ اس کیلئے آج رو رہے تھے۔ اسکی اچانک موت نے سبکو رلا دیا تھا بہت بڑی نماز جنازہ میں اس بات کا اظہار تھا کہ سایہ اٹھ گیا مددگار چلا گیا اور انصار برادری یتیم ہوگئی نماز جنازہ ٹوٹے ہوئے دل کیساتھ میری امامت میں ادا ہوئی۔
اللہ رب العالمین ناصر انصاری کی تمام نیکیاں قبول کرے جنت الفردوس عطا فرمائے ہم سبکو صبر جمیل دے اور ہماری بستیوں میں اس نبوی کردار کے لوگ بھیجتا رہے ایسے عظیم کرداروں سے ہمیں محروم نہ کرے اور ہمیں بھی یہی کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین ثم آمین
مرزا ثوبان بیگ نے لکھا
ناصر بھائی غمزدہ اور حیرت زدہ چھوڑ کر رخصت ہوگئے ۔
ایک عجب بے یقینی کی سی کیفیت ہے مگر حقیقت وہ ہی ہے جو آنکھیں دیکھ چکی ہیں ناصر بھائی سے واقفیت اس وقت سے ہے جب وہ یوسی ناظم تھے اور میرا بچپن تھا مگر حقیقی معنوں میں ناصر بھائی سے تعلق پچھلے 3,4 سالوں میں قائم ہوا حلقہ 87 کا شاید ہی کوئی پروگرام ایسا ہوگا جس میں ناصر بھائی نے مجھے مدعو نہ کیا ہو کیمپ سے درس قرآن تک اور کارنر میٹنگ سے ریلیوں تک ہر ایونٹ کے لیے ناصر بھائی کی کال موصول ہوتی تھی وہ ہمیشہ مجھے گفتگو کی دعوت دیتے ہوئے “میرے بھتیجے” کے الفاظ کہتے اور اکثر پروگرام کے بعد جب ہم چائے پی رہے ہوتے تھے تو مجھے بتاتے کہ تمہارے حوالے سے میں نے بھابھی کو سالوں پہلے بول دیا تھا کہ :
“یہ اسٹیج کا بدمعاش بنے گا”
اور آج دیکھو میری بات درست ثابت ہورہی ہے :(حالیہ لاک ڈاون میں جب راشن سینٹر لانڈھی میں قائم ہوا تو ناصر بھائی پیش پیش رہے رات کو 2,2 بجے میں ان کو کہتا پلاؤ کھانی ہے اور وہ کہتے چلو اور ہم 2-C میں پلاؤ کھانے چلے جاتے ناصر بھائی کے حوالے سے بے شمار یادیں ہیں جو مسلسل میرے دل و دماغ میں گردش کررہی ہیں کل ان کے جنازے میں بھی ہم جہاں جہاں سے گزر رہے تھے مجھے صرف یہ یاد آرہا تھا کہ اس جگہ کارنر میٹنگ کی تھی یہاں کرکٹ ٹورنامنٹ تھا یہاں درس دیا تھا۔
کیا کیا لکھوں یادوں کا ایک سمندر ہے ..!
ناصر بھائی ایک نہایت متحرک اور باصلاحیت قائد تھے یقین کیجیئے وہ تنظیمی اعتبار سے مردہ حلقوں میں جان ڈالنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور ایسا انہوں نے کر کے بھی دکھایا حلقہ بابر مارکیٹ میں انہوں نے جس طرح انقلاب پیدا کیا وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی اللہ نے انہیں زبردست قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جسے انہوں نے اللہ کے دین کی راہ میں استعمال کیا۔
ناصر بھائی آج ہم میں نہیں ہیں جہاں یہ ان کے اہل خانہ کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے وہیں جماعت اسلامی کا بھی بہت بڑا اثاثہ آج مٹی تلے دفنا دیا گیا ہے۔
میری التجا ہے ہمارے ناصر بھائی کو اپنی دعاوں میں ضرور یاد رکھیئے جزاک اللہ۔
خدا حافظ ناصر بھائی مگر میری شادی کی دعوت آپ پر واجب ہے آخری ملاقات والے دن بھی آپ نے کہا تھا میں نے تمہاری دعوت کرنی ہے مگر آپ کے پاس وقت نہیں تھا لیکن اب انشاء اللہ آپ سے جنت میں ملاقات ہوگی اور یہ دعوت بھی وہیں ہوگی!
خدا حافظ
سید اطہر بلال لکھتے ہیں
افسوسناک اور شاکنگ خبر سننے کو ملی کہ سابق یوسی ناظم ناصر انصاری بھائی خالق حقیقی سے جا ملے۔ یقین ہی نہیں آتا جب کوئی اچانک چلا جائے۔ ناصر بھائی کا نام سنتے ہی خود کو ایک اعتماد ملتا کہ انکی خود اعتمادی اور ببانگ دہل جماعت کی بات کرنا ہم کو بھی حوصلہ دیتی اور ایسے لوگوں کے لیے سر عقیدت سے جھکا جھکا جاتا۔
ابھی ابھی پڑھی گئی چند دوستوں کی انکے انتقال سے متعلق پوسٹ بہت اداس کرگئی کہ دنیا ایک جی دار اور بہترین فرد سے محروم ہوگئی۔ اللہ انکو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور انکے اہل خانہ اور خاص کر بچوں کو حوصلہ دے۔ آمین۔
غرض کہ ایسی بے شمار گواہیاں ہیں جو لوگوں نے دیں۔
ذاکر ماموں حیران ہیں کہ ناصر نے عشاء کی نماز میرے برابر میں پڑھی۔
پکنک پر ساتھ جانے والے حیران ہیں کہ ناصر بھائی اتنا انجوائے کراتے ہیں۔
میرا شیر دلیر بھائی ظالم کے سامنے سینہ سپر ہونے والا،قاتلوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے والا،انھیں جیل بھیجنے والا،ان کی دھمکیوں سے خائف نہ ہونے والا ان قاتلوں کے سامنے رہا تو بھی وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکے یہ اس بات کی زندہ علامت ہے زندگی اور موت صرف خدا کے ہاتھ میں ہے،اور بھائی جان اللہ کی برہان تھے۔
سب کو سبق دے گئے کہ بہنوں لو آج تمھارا ڈر ختم کہ بھائی کو کوئی کچھ کر نہ دے
بیگم تمھارے خدشات ختم ہوگئے
اور اے مار آستینوں چاہو تو لے لو میری جگہ، اہلیت ہے تو لے لو، آج وہ مار آستین ندامت کے آنسو بہائے جارہے ہیں، زبانیں ان کی گنگ ہیں،اللہ ان کی نا اہلی ثابت کرچکا ہے۔
میرے بھائی جو اپنے گھر کی سیڑھیاں عبور نہ کر سکے حسب عادت بغیر ہاؤ ہو مچائے کسی سے کوئی خدمت لیے بغیر جنت کی سیڑھیاں عبور کر گئے اب وہ یقینا حسین جنتوں کے وارث ہوں گے، حوریں اور شراب چشمہ جاری، لبریز پیالے ان کے منتظر ہوں گے،ساقی کوثر اپنے ہاتھوں سے جام کوثر پلا رہے ہوں گے۔
دراصل بھائی تو اچھی جگہ ہیں اپنی نذر دے کر اپنا انعام پا چکے۔
ہم ان کے بغیر ادھورے ہیں سو ہم خود ہی کو روئے ہیں اللہ پاک ہمیں صبر کی توفیق دے اور ہمارے بچوں کو متقیوں کا امام بنائے آمین۔
صرف بھائ جان کی بہن