اپنے ہوں یا غیر، بہت سے لوگ، جماعت اسلامی کے موجودہ حکومت مخالف اکٹھ سے دوری کو غلط فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ اپنوں کے نزدیک یہ ایک سیاسی غلطی ہے جس سے جماعت مزید تنہائی کا شکار ہو جائے گی، جب کہ غیروں کے نزدیک ، ایسا،کسی کے” اشارے” پر کیا گیا ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا زاویہءِ نگاہ ہے لہٰذا اسے وہی کچھ نظر آتا ہے جیسا وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ جب کہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہوتی ہے، وہ کسی کے زاویہءِ نگاہ اور مخصوص سوچ کی محتاج نہیں ہوتی۔ میری ناقص رائے میں، جماعت بہت عرصے بعد ٹریک پر آ رہی ہے اور اس کے متعدد فیصلے درست سمت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں سوائے اس کے کہ ابھی تین چار ہفتے قبل امیر جماعت نے دیگر سیاستدانوں کے ساتھ مل کر آرمی چیف سے، ان کی دعوت پر ملاقات کی جو کہ گلگت بلتستان کے حوالہ سے بتائی گئی تھی ۔ میری ناقص رائے میں، سراج الحق صاحب کو اس ملاقات سے صاف طور پر انکار کر دینا چاہیے تھا اور واضح اور دو ٹوک جواب دینا چاہیے تھا کہ ایسے سیاسی فیصلے، آئین کی رو سے عوام کے منتخب نمائندے، ایوان میں بحث و مباحثہ کے بعد کرنے کے مجاز ہیں نہ کہ ملکی افواج۔
ہماری قومی سیاسی تاریخ کا لب لباب چند الفاظ میں یہ ہے کہ 73 برسوں میں سے جنرل ایوب کے گیارہ برس، جنرل یحیٰ کے دو برس، جنرل ضیاءالحق کے دس برس، جنرل پرویز مشرف کے نو برس، جو کہ کل ملا کر 32 برس بنتے ہیں، اگر نکال دیے جائیں تو باقی کے 32 برسوں میں جو حکومتیں آئیں، جو بظاہر جمہوری تھیں مگر اصل میں وہ بھی مانگے تانگے کی ہی تھیں جو، شرائط کے ساتھ ملکی و بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پروجود میں آئی تھیں ۔ یہی حقیقت،کپتان کی موجودہ حکومت کی بھی ہے جس میں ایک وزیراعظم تک کی لائیور تقریر سینسر ہو جاتی ہے مگر اتنی بڑی خبر، خبر تک نہیں بنتی کہ “خبر” بھی چھلنیوں سے ہو کر گزرتی ہے۔
نواز شریف کی سیاسی ولادت میرے سامنے ہوئی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ جماعت اسلامی جب اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی تو میں نے خود نوازشریف کو وزیراعظم بنانے کے لیے پوسٹر بھی لگائے ہیں تو کنوینسنگ بھی کی ہے۔ اللہ میری اس غلطی کو معاف فرمائے۔ نوازشریف نے وزیراعظم بننے کے بعد سب سے پہلا دھوکہ یہ دیا کہ اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت کو، نون لیگ کی حکومت بنا لیا اور اپنے اتحادیوں سے جان چھڑا لی۔ ان کے امیرالمؤمنین بننے کے بعد کے بھرم اور ضیاءالحق مرحوم کی تقلید میں ہفتہ وار جذباتی خطابات سن سن کر جوانی گزاری ہے۔
ان کی تمام وعدہ خلافیاں، حلیفوں سےباربار کی دغابازیاں، قوم اور امت مسلمہ کو دیے گئے دھوکے اور طوطا چشمی ۔۔۔۔۔ سب میری آنکھوں کے سامنے کی باتیں ہیں۔۔۔اور جس طرح آرس نے ارطغل ڈرامے میں سلطان کے دربار میں سعادتین کوپیک کو کہا تھا کہ: ” میں نے اپنی پوری زندگی میں تم جیسا دھوکہ باز نہیں دیکھا”، بالکل یہی تبصرہ میرا نوازشریف کے لیے ہے کہ پوری زندگی میں ایسا سیاسی بازیگر اور دھوکہ باز شاید ہی ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا ہو۔ صرف کرپشن ہی اس شخص کا جرم نہیں ہے بلکہ اس کا سب سے بڑا اور اصل جرم، قوم سے” نظریاتی سیاست” کے چھیننے کا ہے۔ نوازشریف سےقبل ہماری سیاست “دائیں” اور “بائیں” کی تقسیم کے ساتھ چلتی تھی، اس شخص نے اس تقسیم اور شناخت کو ختم کر دیا، باوجود اس کے کہ اسے “دائیں بازو” والوں نے اپنا نمائندہ بنا کر اقتدار میں بھیجا تھا تاکہ یہ پیپلزپارٹی جیسی اسلامی نظریات و روایات دشمن پارٹی سے مقابلہ کرے۔
یہی وجہ ہے کہ آج کے نوجوانوں کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ “نظریاتی سیاست” بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہے۔ کبھی قوم کا نظریاتی طبقہ ،پیپلزپارٹی کو “دشمن” اور “غدّار” سمجھ کر ایسے دور بھاگتا تھا جیسے کوّا کمان کو دیکھ کر۔ مگر آج وہی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے ہیں۔ کیا اس کا تعلق محض “ووٹ کو عزت دو” سے ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس کا اصل تعلق “مال کو عزت دو” سے ہے۔۔۔ کہ جو مال ہم نے کمایا ہے اس کو ہضم کرنے کی اجازت دی جائے۔
نوازشریف نے پہلے تو ضیاءالحق سے مل کر جونیجو کی مسلم لیگ کو ہائی جیک کیا پھر آئی جے آئی کی سیڑھی سے نصیب ہونے والے اقتدار پر نون لیگ کا ٹیگ لگا دیا۔ یہ وہی شخص ہے جس کی پہلی وزارت عظمیٰ کے حلف کے بعد امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے ان کا ماتھا چوما تھا مگر اقتدار ملنے کے بعد اسی قاضی حسین احمد پر زہریلے اور ممنوعہ آنسو گیس کے شیل پھینک کر مفلوج اور بیہوش کر دیا۔ افغانستان سے روسی افواج نکلنے کے بعد عرب مجاہدین کو، جن کو ہم نے خود ہی بلایا تھا اور جن کی ہم ایک عرصہ تک میزبانی کرتے رہے، پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالہ کرنے کا آغاز بھی اسی نوازشریف کے دؤر سے ہوا۔ جمعہ کی قومی چھٹی کا خاتمہ کرنے کا سہرا بھی اسی شخص کے سر ہے تو سودی نظام کے خلاف قاضی حسین احمد کی پٹیشن کو چیلنج کرنےکا اعزاز بھی اسی نوازشریف کو حاصل ہے۔
یہ وہی نوازشریف ہے جس نے اگلے الیکشن میں جماعت کی حمایت کھونے کے بعد، جماعت اسلامی کے اندر پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور اپنے زرخرید صحافیوں کے ذریعہ، جو کہ خود کو سید مودودی کا مرید کہتے تھے، دیرینہ اور پرانے اراکین تک کے ذہن بدلنے کا بندوبست کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کے اندر، نوازشریف کا ہمدرد ایک اچھا خاصہ حصہ جو کہ سینیئر لوگوں پر مشتمل تھا اور جن کی دینِ حق کے لیے بے شمار قربانیاں تھیں، جماعت سے علیحدہ ہو گیا۔ سنہ 2008 کے جنرل مشرف کے زیرسایہ ہونے والے الیکشنز کے بائیکاٹ کے متفقہ فیصلے سے انحراف والی بات تو زیادہ پرانی نہیں جب یہ ‘شریف شخص’، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف و دیگر کو دھوکہ دیتے ہوئے، تنہا چھوڑ کر انتخابات میں کود پڑا۔
نوازشریف کی دھوکہ بازیوں، دو رخیوں اور پلٹے مارنے کی داستان خاصی طویل ہے۔ انہوں نے صرف جماعت اسلامی ہی کو دھوکہ نہیں دیا بلکہ بے نظیر کے ساتھ ہونے والے میثاق جمہوریت کو بھی پاؤں تلے مسل دیا۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب نے ان سے نہ ہی ملنے اور نہ ہی ساتھ چلنے کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا۔ مگر آج جو مل بیٹھے ہیں تو دونوں کا درد ساجھا ہے اور وہ ہے مقدمات سے جان چھڑانا۔ جیسے ہی ان پر سے پریشر ہٹے گا یہ دوبارہ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے۔
اب بتائیے کہ جو لوگ نوازشریف کے اس ماضی کو جانتے ہیں جو اوپر بیان ہوا،کیا جماعت اسلامی کا اس اتحاد میں شامل ہونا درست ہوگا یا اپنی توانائیاں بچا کر مناسب وقت پر استعمال کرنا زیادہ مناسب؟ دوسری بات یہ بھی دیکھنے کی ہے کہ کیا یہ تحریک واقعی”ووٹ کو عزت دو” والی ہے یا پھر عوام کو ایک مرتبہ پھر بے وقوف بنانے کے لیے برپا کی گئی ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اس کا “ووٹ کو عزت دو” سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ پریشر کے مقابل پریشر کھڑا کرنے کی تحریک ہے، جس کی ایک مثال مولانا کا اسلام آباد میں دھرنا تھا۔ جب پریشر بنا اور نوازشریف کو باہر بھیجنے کا بندوبست ہوا تو مولانا پراسرار طور پر دھرنا ختم کر کے اٹھ کر چل دیے۔ مزید برآں، جس سے “ووٹ کو عزت دو” کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس کو تین سال کی ایکسٹینشن بھی تو انہی لوگوں نے دی ہے۔ بیک ڈور خفیہ ملاقاتوں سے لے کر ایف اے ٹی ایف کے بلز پاس کروانے تک، کون سا ایسا موقع ہے جب ان لوگوں نے انکار کیا ہو؟
اسے ہماری بدقسمتی ہی کہیے کہ جب نوازشریف اور پیپلزپارٹی کی سیاست سے عوام اکتا چکے تھے اور وہ اپنی سیاسی موت مر چکےے تھے تو یہ کپتان ہی ہے جس کی ناقص کارکردگی نے ان مردہ جُثّوں میں دوبارہ جان ڈال دی ہے۔ کپتان ہر ہر محاذ پر فیل ہوا ہے۔ اس کے وزراء ، بجائے اس کے کہ ہاتھ آئے موقعے کو استعمال کرتے ہوئے کوئی کارکردگی دکھاتے، مہنگائی سے مرتے عوام کو اپنی جُگتوں سے لطف اندوز کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس حکومت نے حبس کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ لوگ اب ماضی کی گرم ہوا اور لُو کو، بہار کا تازہ جھونکا قرار دینے لگے ہیں۔ لہٰذا، جماعت اسلامی کا موجود کھیل سے الگ رہنا ایک درست عمل ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنی توانائی بچاتے ہوئے کچھ ایسے ٹھوس منصوبوں پر کام کرے جودور رس اور پائیدار ہوں اور جن سے عوام کو ایک مرتبہ پھر “نظریاتی” جہت مل سکے۔