آفاق اختر انجم کی نظم ( آگہی )۔

میری ھمدم، میری مونس، میری دوست

گو مجھے رات بھر نہیں سونے دیتی

میرے سینے میں خلا پر کر کے

میرے احساس کو معدوم نہیں ھونے دیتی

میری راتوں کو یہ اشکوں میں بھگو دیتی ھے

خشک قلم میں سیاہی نہیں ھونے دیتی

جب بھی الجھا ھوں بصارت کے جھمیلوں میں

یہ بصیرت کو میرے سلب نہیں ھونے دیتی

میرے تنگ سے آنگن میں گوا ھی بن کر

مجھ کو طاقت کا سکندرنہیں ھونے دیتی

میرے بادل کو بوجھل تو بناتی ھے یہ

پر تکبر کا سمندر نہیں ھونے دیتی

میرے چہرے کاجب رنگ بدل جاتا ھے

میری تصویر کو دھندلا نہیں ھونے دیتی

گہری تاریک سی شب میں جگنو بن کر

یہ اندھیرے کو رکاوٹ نہیں ھونے دیتی

میری تکلیف کو راحت میں بدل دیتی ھے

میرے درد کو رسواء نہیں ھونے دیتی

آگہی جان بڑی نعمت ھے

میرے کردار کو میلا نہیں ھونے دیتی

حصہ
ذیشان الحسن عثمانی ایک منجھے ہوئے قلم کار،کسک،جستجو کا سفر،فل برائٹ اورآئزن ہاور فیلوسمیت متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ معاشرتی وسماجی، کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور دیگر متنوع موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں اور ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسرکے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں