سولہ اکتوبر دنیا بھر میں خوراک کے عالمی دن کے طور پر منایا جا تا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد خوراک کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنے سمیت اہم ممالک کو باور کروانا ہے کہ وہ عالمی سطح پر غذائی قلت کے خاتمے اور بھوک میں کمی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔رواں برس عالمی یوم خوراک کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ دنیا میں سنگین وبائی صورتحال کے باعث فوڈ سیکیورٹی سے متعلق شدید چیلنجز درپیش ہیں۔ عالمی اداروں کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ وبا کے باعث رواں برس مزید تیرہ کروڑ افراد بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔
فوڈ سیکیورٹی کی بات کی جائے تو دنیا میں بھوک ،موٹاپا ،ماحولیاتی انحطاط ،زرعی مصنوعات کا ضیاع ،خوراک کا ضیاع اور غذائی قلت ایسے چند عوامل ہیں جن کے باعث انسانی سماج میں اکثر مسائل جنم لیتے ہیں اور ہر ملک کی یہ کوشش ہے کہ ان مسائل سے احسن طور پر نمٹا جائے۔ایک ایسے وقت میں جب دنیا کووڈ۔19سے نمٹتے ہوئے بحالی کے لیے کوشاں ہے وہاں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ خوراک کے تحفظ کے نظام میں بہتری لائی جائے تاکہ کسی بھی قسم کی آفات کی صورت میں عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پیدا ہونے والے اناج کا ایک تہائی ضائع کر دیا جاتا ہے جبکہ ضائع کردہ کھانے کی مقدار تقریباً 1.3 ارب ٹن ہے۔اگر اس رحجان کو روکا نہ گیا تو 2030 تک ضائع کردہ کھانے کی مقدار 02 ارب ٹن سے تجاوز کر جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کھانے کے ضیاع کو روکنے کے لیے باربار اپیل کر رہی ہے تاکہ کروڑوں لوگوں کو غذائی قلت سے بچایا جا سکے۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ افریقہ ،مشرق وسطیٰ اور ایشیائی خطے میں غذائی بحران کے باوجود خوشحال معاشروں میں خوارک کا ضیاع افسوسناک ہے۔
خوراک کے تحفظ میں چین کا عالمگیر کردار انتہائی نمایاں ہے جہاں کووڈ۔19کی موجودہ وبائی صورتحال میں بھی غذائی اجناس کی پیداوار اور قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا گیا ہے۔ چین دنیا میں زرعی مصنوعات کی برآمدات اور درآمدات کے حوالے سے بڑے ترین ممالک میں شامل ہے ، اسی باعث عالمی فوڈ مارکیٹ اور فوڈ سیکیورٹی میں چین ایک اہم شراکت دار ہے۔ خوراک میں چین کی خودکفالت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وبائی صورتحال اور چند علاقوں میں سیلاب جیسی آفات کے باوجود رواں برس چین میں فصلوں کی بہترین پیداوار ہوئی ہے ،اناج کی پیداوار مسلسل چھٹے برس 650ملین میٹرک ٹن رہنے کی توقع ہے ، اہم فصلوں مثلاً گندم اور چاول وغیرہ کی مجموعی پیداوار مستحکم ہے ۔
چین ملک میں خوراک کی وافر دستیابی کے باوجود غذائی تحفظ کے نظریے پر عمل پیرا ہے ،خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لیے کلین پلیٹ مہم جیسے اقدامات میں تیزی لائی گئی ہے اور اس بات کا شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اناج کے ہر ایک دانے کی اہمیت ہے۔چین کے یہ اقدامات اقوام متحدہ کے دو ہزار تیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں شامل بھوک کے مکمل خاتمے کی تکمیل کے لیے اہم ہیں۔چینی صدر شی جن پھنگ خوراک کی قدر سے متعلق اکثر ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ اگرچہ ملک میں اناج اور فصلوں کی مسلسل بہترین پیداوار حاصل ہو رہی ہے لیکن چینی قوم کو فوڈ سیکیورٹی سے متعلق بحران کے حوالے سے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔انہوں نے تمام متعلقہ محکموں پر زور دیا کہ خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لیے ایک طویل المدتی میکانزم تشکیل دیں۔چین میںریستورانوں نے بھی کھانے کے آرڈرز میں اس بات کو لازمی بنایا کہ صارفین آغاز میں کھانے کی نصف مقدار آرڈر کریں گے تاکہ کھانا ضائع نہ ہو۔اعداد و شمار کے مطابق چین میں سالانہ سترہ سے اٹھارہ ملین ٹن کھانا ضائع کر دیا جاتا ہے جبکہ بڑے شہروں میں تو یہ مقدار تیس سے پچاس ملین ٹن سالانہ ہے۔سال 2015 میں کیے جانے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ چین میں ضائع کردہ کھانوں میں سبزیاں ،چاول ،نوڈلز اور گوشت شامل ہیں۔ہر صارف ایک کھانے میں 93 گرام کھانا ضائع کرتا ہے جبکہ اسکول کیفے ٹیریاز اور بڑے ریستورانوں میں نسبتاً زیادہ کھانا ضائع ہوتا ہے۔
چین کا آئین بھی خوراک کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ، زرعی قانون شہریوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ اشیائے خوراک کو محفوظ کریں اور اسے ضائع ہونے سے بچائیں۔اس کے علاوہ ماحولیاتی قانون ،صارفی حقوق کے تحفظ کا قانون اور فوڈ سیکیورٹی قانون بھی خوراک کے تحفظ کی حمایت کرتے ہیں۔
ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین نے دنیا کے کئی ممالک اور عالمی تنظیموں کے ساتھ کثیر الجہتی کے فروغ کے لیے زرعی شعبے میں تعاون کے معاہدے کر رکھے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ چین گلوبل فوڈ سکیورٹی کو آگے بڑھانے کے لیے انتہائی فعال ہے۔چین نے غذائی قلت کے شکار کئی افریقی ممالک کو بھی زرعی منصوبہ جات میں مدد فراہم کی ہے تاکہ وہ اپنی غذائی ضروریات پوری کر سکیں۔ چین میں ایک قول ہے کہ چاول کا پیالہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہونا چاہیے ،اسی تصور پر عمل پیرا ہوتے ہوئے چین نہ صرف اپنے عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی خوراک کا ضیاع روکنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ایسے میں عالمی برادری کو بھی فوڈ سپلائی چینز فعال رکھنے کے لیے چین کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے وگرنہ کووڈ۔19جیسی آفات کے باعث دنیاکے غریب خطوں میں انسانی صورتحال کو مزید چیلنجز درپیش آ سکتے ہیں۔