کچھ دن پہلے ایک فون آیا کہ بھائی دل نہیں لگتا پریشان ہوں جی چاہتا ہے کہ رو لوں جواب میں ہم نے عرض کیا تو رو لیں اس میں کوئی پوچھنے والی بات ہے کیا؟ ہر سو اب یہی غم کھا رہا ہے زندگیوں کو کہ دل اداس ہے، پریشانی ہے ،کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آتا یہ ہر کسی کا اب غم بنتا جارہا ہے تو پہلے طے کرلیں کہ آپ کی زندگی کا مالک کون آپ خود ہیں یا وہی رب جس نے آپ کو پیدا کیا ہے گر آپ اپنے آپ کو رب کا غلام اور اس کی مرضی کے تابع ہونے کا یقین رکھتے ہیں تو چلے دیکھئے قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف زاویوں سے قلب مطمئن کا ذکر ملتا ہے مثال کے طور پر قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
الا بذکر للہ تطمئن القلوب(الرعد آیت 28) بے شک دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔ یعنی انسان پوری دنیا میں سکون کی تلاش کر لے نہیں ملے گا۔ کیونکہ حق تعالیٰ نے خود بتا دیا کہ دلوں کا سکون میری یاد میں ہے۔ جب دلوں میں سکون ہوگا تو ظاہراً بھی طمانیت جھلکتی نظر آئے گی۔ جو قلب میں یاد خدا بسائے گا وہ روحانی سکون پائے گا۔ دوسری جگہ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (سورۃ الحجرآیت 9) اس نصیحت کو ہم نے ہی نازل کیا اور اس کی حفاظت کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ تو یہاں لفظ ذکر نصیحت کے معنی میں ہے۔
ایک جگہ فرمایا۔ فذکرونی اذکرکم (سورۃ البقرہ آیت 52) ہلکا پھلکا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ جو دل ہے اپنے مالک سے لگا رہے تو اس میں گلشن امید باقی رہتی ہے نہیں تو آوارگی اس کا طرہ امتیاز بن جائے تو یقیناًاس کا ڈگر پے رہنا نا ممکن بن جایا کرتا ہے اپنے مالک کے حکم کے سوا جوں جوں انسان نکلتا جاتا ہے یوں ہی پھر آہستہ آہستہ دل بھی اپنا درد چلا کر کہتا ہے اور سکون دل لٹ جائے تو کیا کیجئے پھر چاہے کہ دنیا کتنی بھی آرائش زیبائش کے ساتھ سامنے موجود ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خبردار ہو جاؤ! کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔
دل کا ذکر آتے ہی ہمارا تصور اپنے دل کی طرف چلا جاتا ہے ہم جانتے ہیں کہ دل کیا ہے جس دل کی نشاندہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمائی ہے دنیا کی ہر سہولت میسر ہو ،ہر خواہش پوری ہورہی ہو، آسائش و آرام موجود ہو پر سکون دل لٹ جائے تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا ،کیوں کہ دل ہے ہی ایسا کہ بگڑ جائے تو سب کچھ بدلا بدلا سا لگتا ہے سنور جائے تو خاک بھی سونا چاندی لگتی ہے۔ دل گلستاں تھا تو ہر شے سے ٹپکتی تھی بہار دل بیاباں ہوگیا عالم بیاباں ہوگیا جب دل تباہ ہوتا ہے تو سارا عالم اندھیرا لگتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لو گے تو ان شاء اللہ اس کی برکت سے دل باغ و بہار ہو جائے گا، چین آجائے گا اور جب دل میں چین ہوتا ہے تو سارے عالم میں چین نظر آتا ہے، جب دل غم زدہ ہوتا ہے تو سارے عالم میں غم نظر آتا ہے۔
یہ آنکھیں تابعِ دل ہیں، بصارت تابعِ بصیرت ہے یعنی قلب کا جو حال ہوگا آنکھ کا وہی حال ہوگا۔ اگر دل خوش ہے تو ہر طرف خوشی نظر آئے گی اور اگر دل میں غم ہے تو ہر طرف غم نظر آئے گا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار اور توبہ اور ذکر کی برکت سے دل میں چین آئے گا تو سارے عالم میں آپ کو چین ملے گا،بال بچوں میں بھی سکون سے وہی آدمی رہتا ہے۔ اور جس کا دل گناہوں سے پریشان رہتا ہے وہ اپنی بیوی سے بھی لڑتا ہے،بچوں کی بھی پٹائی کرتا ہے، ہر شخص سے اُلجھتا ہے کیوں کہ اس کا دل معتدل اور نارمل نہیں ہے، مثل پاگل ہو جاتا ہے۔
پاگل آدمی ہر ایک کو ستاتا ہے، پاگل کا کیا بھروسہ۔ یاد رکھو جو عقل کا خالق ہے جب اس کو راضی کرو گے تو عقل ٹھیک رہے گی ورنہ جو جتنا گناہ کرتا ہے عقل خراب ہوتی چلی جاتی ہے اور عقل کی خرابی سے آدمی پاگل ہوتا ہے اور پاگل نہ خود چین سے رہتا ہے نہ چین سے رہنے دیتا ہے۔ ہر حال میں ہے کرم آپ کا ورنہ ہم اس کرم کے تو قابل نہیں۔ کیونکہ ہم نے ایسے ہی کچھ چیزیں اپنے لئے خیالوں میں بنا لی ہوتی ہیں جن کے پورا نہ ہونے پر ہم اکثر مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر وہی دل کا اجڑنا جس کے بعد دل کی مایوسی آدمی کے لئے زہر قاتل بن جایا کرتی ہے۔
پھر سکون دل پانے کے لئے آدمی کیا کیا نہیں کرتا اب ہم حکیم کے پاس جاتے ہیں وہ کہتا ہے کہ یہ ڈیپریشن ہے کچھ دوائیاں لکھ کر مریض سوچتا ہے کہ میرے دل کا علاج ہورہا ہے، یقین کریں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ یہ سب دوائیاں آپ کو مطمئن کرنے کے لئے دی جاتی ہیں ورنہ مایوسی کا تو علاج ہی نہیں آپ مایوس ہوجائیں تو کوئی آپ کو امید دلا نہیں سکتا خواہ کتنی بھی کوشش کریں ۔
مایوسی کو اسلام کفر کہتا ہے رب کہتا ہے ارے بندے میری رحمت سے مایوس مت ہوجا ،مطلب اللہ اپنی رحمت کی امید دلا رہا ہے تم تھک ہار جاؤ پر مایوس مت ہوجانا میری رحمت کے دروازے وسیع ہیں، کہیں نہ کہیں میری رحمت تیری مایوسی پر حاوی ہوجائے گی اور ذریعہ بن جائے گی نجات کا۔ ہاں گر آپ کوئی فلسفی ہیں یا اللہ کے باغی ہیں تو پھر اطمنان گیا خاک میں خواہ کتنی بھی کوشش کریں دل برباد ہوکر کی رہتا ہے ،سکوں لٹ جائے، گا خواب بکھر جائیں گئے، سر درد ستائے گا ،نیند ختم، آرام ختم ،دل ویران خانہ کے سوا کچھ نہ رہے گا۔
طائف کی وادی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے جاتے ہیں واپسی پر جب تھوڑا سا اطمنان ہوتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو مایوس نہیں ہونے دیتے بلکہ رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں جیسے کہ ( صرف ترجمہ) اے اللہ ! میں اپنی طاقت کی ناتوانی اپنی قوت عمل کی کمی لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے بسی کا شکوہ تیری بارگاہ میں کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے تو میرا بھی رب ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے ایسے کے حوالے جو ترش روئی سے میرے ساتھ پیش آتا ہے کیا کسی دشمن کو تو نے میری قسمت کا مالک بنادیا ہے اگر تو مجھ پر ناراض نہ ہو تو مجھے ان تکلیفوں کی ذرا پروا نہیں پھر بھی تیری طرف سے عافیت اور سلامتی میرے لیے زیادہ ہے۔
میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے نور کے ساتھ۔ جس سے تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اوردنیا و آخرت کے کام سنور جاتے ہیں۔ کہ تو نازل کرے اپنا غضب مجھ پر اور تو اتارے مجھ پر اپنی ناراضگی میں تیری رضا طلب کرتارہونگا یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے تیری ذات کے بغیر نہ میرے پاس کوئی طاقت ہے نہ قوت دعا پر غور کیجئے تو آپ پائیں گےجہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمزوری کا اظہار اللہ تعالی کی قوت کے سامنے کر رہے ہیں وہیں دل کو تسلی دے رہے ہیں کہ مدد ضرور آئے گی، جہاں اپنی بیکسی کا اظہار کر رہے ہیں وہی اللہ کی رحمتوں کے سایہ کی امید ہے۔
یہ دعا پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے پرآپ نے نا تو امید ہی چھوڑی اور نا ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم طائف والوں کی ترش روئی دیکھ کر مایوس ہوئے کیوں کہ ان کا یقین تھا کہ ان سے بڑی بھی ایک قوت ہے جو میرا سہارا ہے وہ مجھے اس ظلم و جبر کے بیچ نہیں چھوڑنے والا۔ مطلب حالات کتنے بھی کٹھن آئیں پر اللہ پر بھروسہ رکھیں بدلیں گے ضرور ۔پر ہمارا المیہ یہ ہے کہ بجائے رب سے اپنی فریاد کرتے بلکہ الٹا ہم خدا شکوہ شکایت کرتے ہیں، ارے بھائی خود کو بدلیں رب کو جانیں وہ مشکلات کے بعد ضرور آسانیاں پیدا کرے گا اور آپ کو خوشی دے گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی کے سامنے خطرناک سے خطرناک حالات آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امید دلا دی اب مطمئن ہیں، مطلب کامل یقین ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوکر رہے گا تو خود سوچنے کو بیٹھے نہیں ،اعلان ہوا کہ عوام کی سلطنت پر آپ فاتح ہوں گے تو کسی نے اپنے پھٹے پرانے جوتے یا بھوک افلاس نہیں دیکھا بلکہ یقین کر لیا کہ اللہ نے کہا ہے تو ضرور ہوکر رہے گا ۔آپ اپنے لئے بھی ایسا ہی سوچیں کہ اللہ میری مدد ضرور کرے گا مشکل آئی تو کیا کروں پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ کو اپنا حال دل سنائیں اپنی ضروریات بتائیں اب آپ کہیں گے وہ جانتا ہے تو صاحب اوپر جو دعا طائف میں مانگی ہوئی نقل کی تو کیا اللہ نہیں جانتا تھا بالکل جانتا تھا اس کا اصل مطلب یہی تھا کہ اپنا بوجھ ہلکا ہوجائے گا اللہ سے فریاد کرنے پر وہ مدد ضرور فرمائے گا اسی لئے تو مانگا جاتا ہے۔
بس تنہائیوں کے کچھ لمحوں میں اللہ سے خوب اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آئے مصائب و مشکلات کو یاد کریں اور پھر اپنی مشکلات کا موازنہ کریں اور پھر طے کریں کہ کیا مانگنا ہے خوب دل لگا کر مانگیں، اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات اس دوران بیان کریں رب کریم آپ کی مشکلات تو آسان کرے گا ہی ساتھ میں آپ کا دل مطمئن ہوجائے گا کہ میں نے تو کچھ پالیا ایسا لگے گا۔ دل بربادہے تو آپ طے کرلیں کہ ویرانی دل کا سبب کیا ہے ؟ کیا خواہشات نفسانی ہیں تو اس کا توڑ حلال طریقے سے کیجئے حرام کو ہاتھ بھی نہ لگائیں ورنہ بجائے افاقہ کے آپ مزید الجھ کر رہ جائیں گئے جیسے کہ ہماری نوجوان نسل آپسی محبت و عشق کے چکر میں پڑ کر اپنے مستقبل کو بنانے کے بجائے مزید دشوار کرنے پر بضد ہے اور سمجھتی ہے کہ یہ بھی ایک خوش رہنے کا طریقہ ہے تو یاد رکھیں جب اس کے نتائج آتے ہیں وہ جان لے جاتے ہیں ،امید بر نہ آئی تو وہی دل کا کرب۔
آسان حل یہی ہے کہ نکاح کو آسان بنانے کی کوشش کریں تاکہ آپ کے حلال طریقہ پر آپ کو سکوں جان مل جائے۔ حسد بھی ایک بیماری ہے کہ کسی نے گاڑی بنگلہ خرید لیا تو میرا کیا ہوگا آپ اپنے سے کمتر کو دیکھ لیں ایک بزرگ کے جوتے نہیں تھے تو شکوہ کرنے لگا اپنے رب سے کہ دیکھئے مولا میں کتنا پابند ہوں نمازوں کا ،اسلام کا ،پر ہر کوئی جوتے اور سوٹ بوٹ لگائے ہے اور میرے جوتے بھی نہیں ۔مسجد میں چلا گیا تو رات کے اندھیرے میں کسی کے رونے کی آواز سنی پاس جاکر دیکھا تو بنا پیروں کے اک شخص اللہ تعالی کا شکر ادا کررہا تھا تو فوراً معافی مانگ لی کہ یارب مجھے جوتے نہیں چاہئے بس میرے قدم سلامت رہیں۔ جتنا آپ کے پاس ہے اس پر شکر کرنا سیکھیں نہ کہ اپنی آمدنی سے زیادہ کی تلاش کرنے میں خود کو ہلکان کریں۔
آپ اپنے آس پاس رہ رہے لوگوں سے محبت و احترام سے رہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کی مدد کریں ان کے غم و خوشی میں ان کا ہاتھ بٹائیں ہمسائے لوگوں کا خیال رکھیں رشتہ داروں سے تعلق بنائیں ان کی خیر خوا ہی کا جذبہ پیدا کریں نہ کہ ان سب سے نفرت یا انہیں حقیر سمجھنے کی غلطی، کیونکہ ہر کسی کو حقیر سمجھو گے تو دنیا میں اکیلے رہ جاؤ گے، پھر جب تمہیں ضرورت ہوگی کوئی تمہارے پاس نہ رہے گا اور یوں تنہائیاں جینا مشکل بنا دیں گی۔ بھلا آپ کیوں اپنے آپ کو مایوس ہونے دیں، زندگی کو نعمت الہی سمجھ کر وہ دن خوب صورت انداز میں جی لیں جو دن آپ کو جینے کو ملے ہیں یوں ہی سوچتے رہو گے تو جیو گے کب؟ حوصلہ بڑھائیں جو ہے خوش ہوکر اسے اپنے لئے خوشنما جان کر قبول کریں ۔زیادہ کی تلاش کرو گے تب بھی وہی ملے گا جو نصیب میں ہوگا تو پھر خود کو مشکلات میں کیونکر مبتلا کیا جائے۔
چلتے چلتے ہاں خود کو نہ زیادہ سنجیدہ رکھیں کہ لوگ بات کرنے سے کترانے پر مجبور ہوجائیں نہ اس قدر غیر سنجیدہ کہ آپ مذاق بن جائیں یہاں اعتدال کو اختیار کریں جہاں لازم ہو کہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا وہاں سنجیدہ رہیں جہاں موقع ہو ہنسی مذاق کا مسکرائیں اور مواقع تلاش کریں مسکرانے کے یہ صحت کے لئے بہت ہی فائدہ مند ہے خوشحال معاشرے کو پنپنے دیں اور خود بھی خوش رہیں۔ الطاف جمیل ندوی