یہ پیسے کی حوس نہیں میرا جنون ہے

میں ٹیچر نہیں بننا چاہتا تھا گو ایک استاد کا بیٹا ہوں لیکن مجھے یہ پیشہ پسند نہیں تھا۔ میں نے ایم بی اے کیا اور کارپوریٹ سیکٹر میں داخل ہوا۔ 2004 سے 2008 تک میں ایک مارکیٹنگ ایکزیکٹو سے کنٹری مینیجر تک کا سفر طے کر چکا تھا۔ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ، کمپنی کی گاڑی، گھر سب مل گیا تھا۔ لیکن مجھے لگتا تھا کہ میں کچھ خاص نہیں کرتا۔

برینڈائز یونیورسٹی بوسٹن سے ماسٹرز پروگرام میں امریکا کا سکالرشپ ملا اور ویزہ لگا تو خوش تھا کہ اس ملک سے جان چھوٹی امریکا ہی رہوں گا۔ والدین سے الوداعی ملاقات کرنے آیا تو والد صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کہنے لگے تم خوش نہیں رہو گے۔ شائد تمہیں بچے پڑھانا گھٹیا کام لگتا ہو لیکن مجھے اس پر فخر ہے۔ پھر بولے تم نہ ہوئے تو میں بھی نہیں رہوں گا۔ بس یہ فقرہ تھا جس نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔

امریکہ کا ویزہ اور سکالرشپ وہیں چھوڑا اور اگلے ہی دن سے میں سکول میں تھا۔ وہ دن گیا اور آج کا دن آیا۔ میں نے بطور استاد اس پیشے کو جنون کی طرح اپنایا ہے۔ 900 روپے میں آج ہزارہ پبلک سکول اینڈ کالج جو تعلیمی معیار ان بچوں کو دیتا ہے وہ معیار ہزاروں روپے اینٹھنے والے بڑے بڑے فرنچائز سکول دیتے ہیں لیکن وہ میرا سامنا نہیں کر سکتے۔ میرے جنون کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ میں نے آج تک کبھی کسی سے مقابلہ نہیں کیا۔ اپنے آپ سے کیا ہے۔ اور الحمداللہ ہزارہ پبلک سکول اینڈ کالج نے ان دیہاتی علاقوں میں بین الااقوامی معیار تعلیم اس فیس میں پیش کیا ہے جس کا تصور بڑے بڑے فرنچائز سکولوں کے لیے ناممکن ہے۔

میں ان بچوں میں جب بیٹھتا ہوں تو مجھے یہ منصب اپنی شہرت، دولت اور طاقت سے بہت بڑا لگتا ہے۔ لوگوں کے خواب سچ کرنے کا منصب۔ اپنے دیہاتوں کے بچوں کو یہ احساس دینے کا منصب کہ وہ کسی سے کم نہیں۔ سب ممکن ہے بات تو مشن کی ہے۔

حصہ
mm
احسان کوہاٹی المعروف سیلانی معروف قلم کار ہیں۔لکھنےکے لیے بلاشبہ قلم و قرطاس ہی کا سہارا لیتے ہوں گے مگر ان کی تحریر پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سیاہی نہیں بلکہ اپنے خونِ جگر میں ڈبو کر فگار انگلیوں سے لکھ رہے ہیں۔۔سچے جذبوں اور احساس کی فراوانی صرف سیلانی ہی کے قلم میں ملے گی۔گزشتہ دو دھائی سے روزنامہ امت کراچی میں سیلانی دیکھتا چلا گیا کہ عنوان سے لکھ رہے ہیں ۔آج کل ایک نجی ٹی ؤی چینلز میں پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔