ویسے تو جماعت اسلامی اول روز(قیامِ پاکستان ) سے ہی خلق خدا کی خدمت کا فریضہ انجام دیتی آرہی ہے ۔چاہے وہ قیام پاکستان کے وقت لٹے پٹے مہاجرین کی آباد کاری اور خیمہ بستیوں میں ان مہاجرین کی ضروریات کا خیال رکھنا جو اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ اس نئی ریاست میں آبسے تھے۔
قدرتی آفات سے متاثرہ آبادیاں ہوں تو وہاں سب سے پہلے جماعت اسلامی ہوتی ہے ۔کراچی جو کہ ایک چھوٹی سی ساحلی آبادی تھی جو کہ بڑھتے بڑھتے اب پاکستان کا سب سے بڑا شہر بن گیا ،اس شہر کی یہ خوبی ہے کہ اس نے ہر آنے والے کو چاہے وہ پاکستان کےکسی حصّے سے معاش کی تلاش میں آیا اس شہر نے اس کے لیے اپنے دامن کو کشادہ کیا ۔یہاں امن و محبت کی فضا تھی ہر زبان بولنے والا بستا تھا ۔ایک عرصے تک تو اس شہر کے ادارے بغیر کسی شہری حکومت کے اپنے کام کرتے رہے اور اس شہر میں ترقی کا عمل جاری رہا اور اس کی آبادی تیزی سے بڑھتی رہی۔جماعت اسلامی نے اس شہر میں عوام کی خدمت کے زریعےدعوت دین کا فریضہ بھی انجام دیا اس شہر کے باسی اول روز سے ہی اسلام کے لیے نہایت نرم گوشہ رکھتے تھے ۔ مئیر عبدالستار افغانی جن کا تعلق جماعت اسلامی تھا انہوں نے اپنے دونوں ادوار میں دیانت داری سے کراچی کی خدمت کی اور اس شہر کو عروس البلاد شہر بنادیا اس کے بعد محترم نعمت اللہ خان صاحب نے سلسلے کو جاری رکھا اور بے مثال خدمات کے زریعے کراچی کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ان کی اس کاوش نے جماعت اسلامی کی مقبولیت میں اور اضافہ کیا اس کےعلاوہ اس وقت کے منتخب ممبران قوامی اسمبلی نے بھی ملکی سطح پر خدمت کا فریضہ انجام دیا اس وجہ سے یہاں کی مقبول عام جماعت جماعت اسلامی رہی ہے اس بات کو مخالفین بھی سمجھتے تھے اس وجہ سے ہمیشہ جماعت کی اس مقبولیت کو ختم کرنے اور عوام کے دلوں سے اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں جس میں سب سے اہم کوشش کراچی میں ایم کیوایم کی لسانی تنظیم کی داغ بیل ڈا لنا ہے۔ یہ ایک ایسی مضموم کوشش تھی جس نےآن کی آن میں تمام شہر کے اندر لسانی عصبیت کی آگ بھڑکادی اور تمام لسانی اکائیوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا کردیا ہزارو ں جوان اپنے جانو ں سے گئے اس شہر کے تمام اچھی شناخت کو مٹا دیا گیا، بجائے قائد اعظم ، علامہ اقبال ، راشد منہاس اور ایم ایم عالم اس قوم کے ہیرو بنتے اس قوم کے ہیرو نعیم شری ،اشرف کے ٹواور ریحان کانا قرار پائےاور ملک کے اندر اردو بولنے والوں کے لیے نفر ت کے بیج بودئیےگئے اس کے بعد تین دہائیوں تک یہ شہر جلتا رہا ۔اس دوران جہاں تمام جماعتوں کو جانی مالی نقصان پہنچا، وہا ں جماعت اسلامی کے لیے بھی یہ تین دہائیوں نے آزمائش اور ابتلا ء کی شکل اختیار کرلی اس دوران جماعت اسلامی نے اپنے انقلابی پیغام کو جبر اور ظلم کی آندھیوں کے باوجود لوگوں تک پہنچایا اور اس لسانی تعصب کے آگے بند باندھنےکی پوری قوت سے کوشش جاری رکھی۔ لسانی تعصب کی آگ کو بھڑکانے میں ملک کی دوسری لسانی جماعتوں نے بھی کردار ادا کیا اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے اپنے کارڈ کھیلے ۔ شہر کراچی میں ایم کیو ایم کی تشکیل کا سہرا وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق مرحوم کے سر جاتا ہے ۔ بعد کے دور میں بھی دیگر حکمران جماعتیں اس لسانی تنظم کو اپنے اقتدار کو طول دینے اور دیگر جماعتوں کو پس دیوار دھکیلنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں ۔
محرومیوں کی خالق یہ جماعت عوام کے اندر محرومیوں کو پیدا کرتی رہی اور اسیکو وہ عوام کے اندر اپنے لیے ہمدردی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتی رہی۔اور بھولی بھالی عوام ان کے لیے اپنے دیدہء دل فراش راہ کرتی رہی ۔یہی تمام لسانی تنظیموں کا طریقہ واردات ہوتا ہے ۔ عوام کے مسائل کو حل کرنا ان کے ایجنڈے کا حصّہ ہی نہیں ہوتا ۔ اس کی زندہ مثال آج شہر کراچی ہے جو مسائل آج سے تیس سال پہلے موجود تھے ان میں اضافہ ہی ہو ا ہے ۔مگر جماعت اسلامی نے اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے اور لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔
ہم نے سیکھا ہے اذانِ سحر سے یہ اصول
لوگ خوابیدہ سہی، ہم نے صدا دینی ہے
لیکن اب ایسا لگتاہے کہ یہ حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ۔ یہ شہر کروٹ لیتا محسوس ہورہا ہے لو گ اب اس سحر سے نکل رہے ہیں حالیہ نتاظر میں اگر دیکھا جائے تو حقوق کراچی مارچ نے اس حقیقت کو کھول کر رکھ دیا ہے ۔ بات صرف یہی نہیں کہ ایک مارچ کرلیا جائے اور اس میں عوام کی ایک بڑی تعداد اس میں شریک ہوجائے اور بات آئی گئی ہوجائے ۔ اس مارچ نے دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے الارم بجا دیا ہے جبھی تو تمام بڑی جماعتیں اب کراچی کے حقوق کی مالا جپرہی ہیں ۔اس بوکھلاہٹ میں ایم کیوایم کے مارچ نے تو ان کی ساری حقیقت عوام کے سامنے کھول کررکھ دی ۔
جماعتِ اسلامی نے اب تک جو بھی کام کئے وہ عوامی رائےکو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کیے، حقوق کی اس جنگ کو جیتنے کے لیے بھی عوام کی رائے ضروری ہے اس کے بغیر یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی اب جماعت اسلامی 16،17،18اکتوبر کو ایک عوامی ریفرنڈم کرانے جارہی ہے تاکہ عوامی رائے کو پیش کرکے حکومت پر سیاسی دباؤ کو بڑھایا جائے مگر اس سے پہلے 14 اکتوبر کو ایک یوم یکجہتی کراچی منانے کا پروگرام ہے تاکہ ملکی سطح پر اس بات کو اجاگر کیاجاسکے کہ کراچی جو کہ منی پاکستان ہے اور معاشی حب ہے اگر کراچی حقوق سے محروم رہے گا تو پورا پاکستان متاثر ہوگا ۔ ماضی کی غلطی کو دہرا نا کسی ہوشمند حکومت کو زیب نہیں دیتا اور ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ حقوق کبھی تھالی میں سجاکر نہیں ملتے بلکہ اس جدوجہدمیں عوامی کی شراکت لازمی ہے ۔ ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد کی رائے اس عوامی ریفرنڈم میں حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ضروری ہوگی ۔حقوق کراچی مارچ اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے ….کراچی کو دوبارہ عروس البلاد بنانے کا ۔