گلی کے بچے

گلی کے بچے (اِسٹریٹ چلڈرن) دنیا بھر اور اقوامِ متحدہ کی توجہ کا خصوصی مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی ان کے حقوق کی آواز اُٹھا رہا ہے۔ ہر کوئی کسی ننگے بھوکے غمزدہ بچے کی کچرے کے ڈھیر پر، مکھیوں کے جمگھٹے میں، بوسیدہ کھانے پر لیٹے ہوئے تصویریں لئے دنیا بھر کے ضمیر کو چیلنج کر رہا ہے کہ کوئی تو بھیک دے، کوئی تو مدد کرے، کوئی تو سہارا بنے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کوئی 100 ملین (دس کروڑ) اِسٹریٹ چلڈرن ہیں۔ صرف پاکستان میں کوئی 15 لاکھ بچوں کا شجرۂ نصب کسی گلی کے نکڑ پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور سالانہ 17 ہزار بچوں کا اس میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

عبداللہ سوچا کرتا  کہ یہ سترہ ہزار بچے کہاں سے آئے؟ اِسی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پیداوار ہیں نا، یا یہ بھی کوئی امریکی یا اسرائیلی سازش ہے۔ یا یہ کہ ان کے حقوق دلانے کے لئے بھی کسی خلافت یا امیرالمومنین کی ضرورت ہے۔

سارہ کا شمار، پتھر دلوں کے اِس معاشرے کے چند ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو کانچ کا دل لئے، شیشے کے گھر میں رہتے ہیں۔ اِن کے نازک جذبات اور لطیف احساسات نہ اِنہیں رات کو سونے دیتے ہیں نہ دن کو جینے دیتے ہیں۔ یہ اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ کر، ساری مصلحتیں بھُلا کر، اِن بچوں کی آبیاری میں لگ جاتے ہیں جن کو اِن کے اپنے وارثوں نے لاوارث کر دیا۔

سارہ ان بچوں میں باجی کے نام سے مشہور تھی۔ وہ باجی جو ان کے ساتھ ان میں گھل مل جاتیں۔ کھانا پینا اور کپڑے تو کبھی کبھار کوئی بھی دے جاتا، مگر یہ باجی اُن کا بچپن لوٹاتی تھیں۔ سارہ کی آرگنائزیشن کا مقصد بچوں کو ان کا چھینا ہوا بچپن لوٹانا تھا۔

ایسے لوگوں کے دل کیونکہ شیشے کے ہوتے ہیں لہٰذا ہر شخص کو اس میں اپنا عکس نظر آتا ہے۔ بیمار معاشرے کے مریض لوگ، جب انہیں دیکھتے ہیں، کوئی برائی ہی نظر آتی ہے۔ بے وقوف اتنا بھی نہیں جانتے کہ کچھ لوگوں کی روحیں ان کی سوچ اُن کے جسموں کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ اُن کی اپنی ہستی، اُن کے وژن میں گم ہو جاتی ہے۔ مگر جذبات و شبہات سے ماوراء ہو کر سوچے ہی کون۔ ہمارے معاشرے میں خوبصورتی وہ گالی ہے جو جب چاہیں جس کے منہ پر کالک بنا کر مل دیں، اب بے چارہ مظلوم خود ہی دلائل دیتا پھرے۔

ایسے میں تمام دنیا کو قتل کرکے ایک بار ہی دل کے قبرستان میں دفن کر دینا چاہئے۔ اور پھر فاتحہ پڑھ لیں کہ آج کے بعد نہ کسی کی تعریف سے فرق پڑے نہ بُرائی سے۔

آج صبح آرگنائزیشن کی بس نے گلی نمبر 5 سے کچھ بچوں کو اُٹھایا تو دوسری جھگیوں کی کسی گلی سے کچھ اور کو۔ جب وہ آرگنائزیشن کے دفتر پہنچی تو لوگوں اور پڑوسیوں نے بس کو دیکھ کر یوں منہ بنایا کہ جیسے کچرے کی ڈالی کچرہ سمیٹ رہی ہو۔

ہال میں 20 کے قریب بچے اور بچیاں کھڑے تھے۔ پاکستان کے ترانے سے دن کا آغاز ہوا.  سارہ نے ایک ایک کرکے سب کے بال کاٹے، نہلایا، نئے کپڑے پہنائے، کھانا کھلایا اور کاپی کتابیں مہیا کیں کہ وہ کچھ سیکھیں۔

چھوٹی صدف کے ایک ہاتھ میں کوئی الرجک ری ایکشن ہوا تھا اور پورا ہاتھ گل رہا تھا، ننھے زبیر کی کمر پر گھوڑے والے چابک کے نشان تھے، سات سالہ شعیب کا ایک ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا جو بس کنڈیکٹر نے بس کی صفائی ٹھیک سے نہ کرنے پر ہتھوڑا مار کے توڑ دیا تھا۔  9 سالہ عاصم کے ہاتھ جوتے پالش کرکرکے کالے ہو گئے تھے، 5 سالہ اکبر کے کپڑوں میں لوہے کی ویلڈنگ مشین سے اتنے سوراخ ہو چکے تھے جتنے آسمان پر تارے۔ 3 سالہ زینب ابھی تک بول نہ سکتی تھی یا شاید اس عمر میں وہ کچھ دیکھ لیا تھا کہ ہمیشہ کو چپ لگ گئی تھی۔

 ۱۰سالہ زُلیخا کے جسم پر نہلاتے ہوئے سارہ کا ہاتھ پڑا تو اس نے چیخ ماری اور تھرتھر کانپنے لگی۔ کلی کے سے جسم پر اتنے نشان تھے کہ جیسے جانوروں نے اُسے بھنبوڑ ڈالا ہو۔ 13 سالہ علیشاہ کا گریبان ہمیشہ پھٹا رہتا۔ یہ ان کار والوں کی نشانی تھا جن کی کاروں کو وہ ٹریفک سگنل پر دھویا کرتی۔

 ۱۰سالہ ثاقب کچرا اُٹھاتے اُٹھاتے چرسیوں کی ہوس کا نشانہ بن چکا تھا، وہ بار بار کہتا، نہ سارہ باجی نہ، صابن نہ لگانا، مرچی لگتی ہے، درد ہوتا ہے۔ سارہ سوچنے لگی کے جیسے ایک گاؤں مل کر ایک بچے کو پالتا ہے ، اسی طرح ایک بچے کے استحصال کی ذمہ داری بھی پورے گاؤں پر ہی آتی ہے.

جوں جوں دن گزرتا گیا، سارہ کا اپنا وجود چھنی ہوتا چلا گیا، 3 سالہ زینب اس کی گود میں پہاڑ کا سا وزن رکھتی تھی۔ جانے کیسے لوگ ہیں کے زندگی نکال کر زندہ رہنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں.

سارہ نے بمشکل تمام سب کو رخصت کیا اس وعدے کے ساتھ کہ اگلے اتوار کو پھر ملیں گے۔ بچوں کے جانے کے بعد اسٹاف منیجر نے فنڈز ختم ہو جانے کی نوید سُنائی۔

سارہ جگہ جگہ جاتی رہی مگر کچھ ہی دنوں بعد سی ڈی اے نے آفس سیل کر دیا کہ کروڑ پتی پڑوسیوں کو اِن غلیظ و ناپاک بچوں کا اپنے محلے میں آنا پسند نہیں تھا۔ اِسی ہفتے ملک کے وزیراعظم کی بیٹی کو اقوام متحدہ میں اِسٹریٹ چلڈرن کا سفیر مقرر کر دیا گیا۔ اخبار میں ان کی تصویروں کے ساتھ ایک سہما ہوا  بچہ کھڑا تھا، چپ چاپ، خاموش، ڈرا ہوا، بھوکا اور خوفزدہ۔

آج سنڈے تھا، آج کوئی بس کسی کو لے کر نہ آئی، سارہ آسمان کے نیچے بیٹھی۔ صرف آسمان کو تکے جا رہی تھی، اِس نے دعا کو ہاتھ اُٹھائے۔ ’’یا ذوالجلال والاکرام ، یا اللہ، یارب، اِن ٹوٹے ہوئے، مظلوم و مقہور، ناجائز و ناپاک، گندے اور غلیظ بچوں کا واسطہ دیتی ہوں، ان کا واسطہ جو چپ ہو گئے، جن کی زبان، آنکھیں اور جسم داغدار ہوئے۔ جن کے چہروں سے وحشت چمٹ گئی، جن کی ہڈیاں توڑ دی گئیں، جن کے بچپن چھین لئے گئے، جن کو گناہوں کا تختۂ مشق بنا لیا گیا… انتَ مولانا، تو تو ہمارا رب ہے۔ تو پیسے دے، تو رتبہ دے تو کوئی اِدارہ بنا سکوں۔

میں آج امریکہ جاتی ہوں کہ کچھ پیسے کما سکوں۔ تو پیچھے خیال رکھنا اور شمار رکھنا کہ کتنی زینب چپ ہو گئیں، کتنے ثاقب زخمی ہوئے، کتنے گریبان چاک ہوئے، کتنے سوراخ کپڑوں سے نکل کر جسموں میں چھید کر گئے۔  تیرے سہارے گلی کے بچے جنہیں کوٹھیوں نے وجود بخشا۔ تیرے حوالے اُمت کی بیٹیاں جن کی حیاء بیچ دی گئی۔ تیرے ذِمہ وہ کلیاں جنہیں مسل دیا گیا۔ میں واپس آؤں گی، مجھے تیری ذات کی قسم، تجھے تیری حیاء کا واسطہ میری مدد کر، مجھے تنہا نہ چھوڑنا! آمین‘‘

اگلے ماہ سارہ کی تصویر پاکستانی اخبار میں چھپی۔ برین ڈرین کے عنوان کے تحت ان لوگوں میں جو پیسے کی لالچ میں امریکہ چلے گئے۔

گلی نمبر 5 میں آج بھی یہ بچے صبح لائن بنا کر گاتے ہیں۔ ……پاک سرزمین شاد باد !!

حصہ
ذیشان الحسن عثمانی ایک منجھے ہوئے قلم کار،کسک،جستجو کا سفر،فل برائٹ اورآئزن ہاور فیلوسمیت متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ معاشرتی وسماجی، کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور دیگر متنوع موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں اور ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسرکے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں