نام کتاب: دینی نصوص اور انسانی فہم
مصنف: عمر عبید حسنہ
برصغیر میں عصر رواں میں جتنی کوششیں کافروں کو قادیانی بنانے، بریلویوں کو بدعتی ومشرک گرداننے، اہل حدیث کو غیر مقلد ٹھہرانے اور حنفیوں کو گمراہ قرار دینے کے لیے کی گئیں اس کوشش کا عشر عشیر بھی غیر مسلموں کو اسلام سے روشناس کرانے کے لیے نہیں کیا گیا ، فرقہ وارانہ مسائل پر جس قدر جوش وخروش نظر آتا ہے سنجیدہ دینی مسائل ومذہبی امورکے لیے اس طرح کی سرگرمی تقریبا ًناپید ہے۔ ہر روز کا مشاہدہ ہے کہ جہاں ہمیں یہ موقع ملتا ہے کہ کسی عالم ،کسی مسلک یا کسی فرقہ کے کسی رجحان یا خیال کو منفی شکل دے کر اس پر احتجاج کیا جائے اس کے خلاف رائے عامہ بھڑکائی جائے ہم اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور جب ہمیں ایمان وعمل یا کتاب وسنت کے صحیح تفقہ کی دعوت دی جاتی ہے تو ہماری غفلت شعاری اسے نظر انداز کردیتی ہے یہ ہے ہماری تخریب پسندی وتعمیر دشمنی ۔
جو اصول بنیادی طور پر فروعی وجزوی مسائل کی تحقیق کے لیے وضع کیے گئے تھے فقہ وفتاوی کے مسائل وموضوعات سو فیصد ان اصول سے آزاد رہے کسی بھی مسلک کے مقلد علماء نے فقہ وفتاوی میں اصول فقہ کا استعمال نہیں کیا بلکہ نئے مسائل ونوازل کو نظائر کی روشنی میں حل کرنے کا معمول رواج پکڑتا گیا اور ان مسائل کا ان کے زمان ومکان اور حالات وماحول سے کاٹ کر ماضی کے سیاق وسباق میں سمجھنے کی کوشش کی گئی یعنی عہد ماضی کے فقہاء و مفتیان کرام کے استنباطات و فتووں کو نصوص کا درجہ دیدیا گیا اور قیاس علی القیاس کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہواجو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔
حالانکہ آئمہ مخلصین ومجتہدین عاملین نے متفقہ طور پر تصریح کی ہے کہ قیاس نص پر ہوگا نہ کہ کسی اور قیاس پر ، اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہوا کہ فکر مند مصلحین کی مساعی بار آور نہیں ہوئیں اور فقہ کی اصطلاح کے جس گوشے میں قدم اٹھایا جاتا رہا راہ عمل یک قدم مسدود دکھائی دیا ۔
پیش نظر کتاب اصلاح کی سمت میں ایک قدم ہے ہم مصنف کے شکر گزار ہیں کہ نصوص کے سمجھنے کے لیے اس نئی کوشش کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی۔ امید ہے کہ اس سے فقہ کے متعلق ایک متبادل اور بہتر طریقہ فکر کا آغاز ہوگا۔