ہم ایسے ہیں نہیں (نظم)۔

خرید کر جو پرندے اُڑائے جاتے ہیں

ہمارے شہر میں کثرت سے پائے جاتے ہیں

میں دیکھ آیا ہوں اِک ایسا  کارخانہ ‘ جہاں

چراغ توڑ کے سُورج بنائے جاتے ہیں

یہ کون لوگ ہیں ؟ پہلے کبھی نہيں دیکھے

جو کھینچ تان کے منظر پہ لائے جاتے ہیں

اے آسماں ! تجھے اُن کی خبر بھی ہے کہ نہيں

جو دن دیہاڑے زمیں سے اُٹھائے جاتے ہیں

میں اِس لیے بھی سَمُندر سے خوف کھاتا ہوں

مجھے نصاب میں دریا پڑھائے جاتے ہیں

کہیں مِلیں گے تو پھر تم بھی جان جاؤ گے’

ہم ایسے ہیں نہيں ‘ جیسے بتائے جاتے ہیں

حصہ
mm
احسان کوہاٹی المعروف سیلانی معروف قلم کار ہیں۔لکھنےکے لیے بلاشبہ قلم و قرطاس ہی کا سہارا لیتے ہوں گے مگر ان کی تحریر پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سیاہی نہیں بلکہ اپنے خونِ جگر میں ڈبو کر فگار انگلیوں سے لکھ رہے ہیں۔۔سچے جذبوں اور احساس کی فراوانی صرف سیلانی ہی کے قلم میں ملے گی۔گزشتہ دو دھائی سے روزنامہ امت کراچی میں سیلانی دیکھتا چلا گیا کہ عنوان سے لکھ رہے ہیں ۔آج کل ایک نجی ٹی ؤی چینلز میں پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔