کبھی آپ نے سوچا کہ لوگ آنکھوں دیکھی مکھی کیوں نگل لیتے ہیں؟ اپنے بے پیندے اور لولے لنگڑے مؤقف ہر کیوں جم جاتے ہیں؟ اور جان بوجھ کر دیوار پر لکھا پڑھنے سے کیوں انکار کردیتے ہیں؟ آپ نے نہیں بھی سوچا تو نفسیات دانوں نے اس پر بہت سوچا اور جواب تک پہنچنے کی سعی کی ہے.
فرض کیجئے کہ اخبار میں کسی خاص موضوع پر آج کوئی بڑی خبر چھپی ہے. تاہم شام کو معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط فہمی پر مبنی ہے. کل کے اخبار میں اگر ایڈیٹر کی طرف سے معذرت کانوٹ لگا دیاجائے تو آپ کے خیال میں کیا ہوگا؟
ہوں! آپ میں سے اکثر سوچیں گے کہ اخبار پڑھنے والے گزشتہ کل کی خبر کے حوالے سے اپنے تاثرات سے رجوع کرلیں گے کیونکہ اخبار نے خود کہ دیا کہ خبر غلط ہے تو ظاہر ہے کہ خبر کی بنیاد ہی غلط ثابت ہوگئی.
کیا یہ سب کچھ اتنا ہی سادہ ہے؟ چلیں اب مثال دے کر سمجھاتا ہوں. فرض کریں کہ آج کے اخبار کی شہ سرخی یہ ہے کہ نواز شریف نے ٹوما ہاک میزائل کی ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا. کل اخبار اسی خبر کے حوالے سے معذرت شائع کرلیتا ہے کہ نہیں، نواز شریف کا ٹوما ہاک میزائل کے حوالے سے کوئی کردار نہیں ہے. اب کیا ہوگا؟ مزید فرض کریں کہ آپ سیاست میں نواز شریف کے حمایتی ہیں. آپ پر یہ معذرت کیا اثر کرے گی؟
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ماہرین نے باقاعدہ تجربہ کیا. تب امریکہ عراق جنگ کے حوالے سے خبریں گرم تھیں. ایک “فیک” شہ سرخی چھاپی گئی اور اس میں کہا گیا کہ امریکہ کو صدام حسین کے ایٹم بم بنانے کے ثبوت مل گئے. اگلے روز تردید شائع کردی کہ نہیں یہ بات غلط تھی( جو کہ واقعی غلط تھی ). تاہم جب سروے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اکثر وہ لوگ جو کہ پہلے سے ہی عراق پر حملے کے حامی تھے، کل کی شہ سرخی کی تردید پڑھنے والے، تردید پڑھنے کے باوجود بدستور عراق پر حملے کے حامی تھے.
اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کسی خاص سیاسی موضوع پر آپ کی رائے یا عقیدے پر اگر بھرپور حقائق آپ کے سامنے رکھ دیے جائیں تو آپ کیا کریں گی /گے؟
شاید اکثر کا جواب ہوگا کہ اگر حقائق سو فیصد درست ہیں تو میں اپنی رائے تبدیل کر لوں گی /گا. تاہم نفسیاتی تجربات سے ایک ہی چیز بار بار ثابت ہوئی ہے کہ اگر آپ کی خاص پسند یا عقیدے کو چیلنج کیا جائے تو بجائے مؤقف تبدیل کرنے کے آپ اسے اور زیادہ کس کر پکڑ لیں گی /گے. اس چیز کو “بیک فائر ایفیکٹ” کہا جاتا ہے.
پچھلے سو سال میں سیاسی چالبازیوں کے حوالے سے بہت سا نفسیاتی لٹریچر موجود ہے. ماہرین نفسیات سیاسی مہمات کے دوران سنائی جانے والی کہانیوں کو “نیریٹیو سکرپٹ” کہتے ہیں. یہ وہ داستانیں ہوتی ہیں جو آپ کے اندر پہلے سے موجود عقائد اور نظریات کی تصدیق کرتی ہیں. اصل میں یہ وہ داستانیں ہوتی ہیں جنہیں آپ بار بار سننا چاہتے ہوتے ہیں اور ان پر پہلے سے موجودہ یقین کے باعث ان پر فوراً ایمان لے آتے ہیں. مثال کے طور حالیہ حکومتی الیکشن میں “ریاست مدینہ” کے تصور کو بہت کامیابی کے ساتھ برتا گیا. ٹرمپ کا “میک امریکا گریٹ اگین” اور مودی کا “انڈیا شائیننگ” بھی مزید کامیاب مثالیں ہیں.
یاد رکھیں انسانی دماغ بنیادی طور پر منفی اطلاعات کی تلاش میں رہتا ہے کیونکہ اسے اپنی بقا کے کسی بھی قسم کے منفی خطرے سے بچنا ہے. چنانچہ منفی خبریں سب سے جلد پھیلتی ہیں اور ان پر فورا یقین بھی کرلیا جاتا ہے. ماہرینِ نفسیات نے یہ بھی دیکھا کہ اگر 20 مثبت بیانوں کے درمیان 2 منفی بیان بھی دے دیے جائیں تو دماغ ٪80 انہی بیانات کو قابو کرلیتا ہے. کوئی بھی سیاست دن زیادہ منفی باتیں کرکے آپ کی توجہ حاصل کرسکتا ہے. ٹرمپ کی پوری مہم منفی بیانیے پر استوار کی گئی.
عرق :اگلی مرتبہ آن لائن یا آف لائن جب اپنے پسندیدہ سیاست دان یا عقیدے کے حوالے سے جب بحث کریں تو ذہن میں رکھیں کہ آپ الٹا اپنے مخاطب کو اپنے پرانے مؤقف پر ڈٹے رہنے کے لئے وارم اپ /تیار کر رہے ہیں. ہاں ذاتی طور پر کسی شخص کی توڑ پھوڑ کرنی ہے تو جہاں بیٹھیں، وہاں چوہا چھوڑتے رہیں، وہ چوہا آگے دوڑتا رہے گا. مزید بری خبر یہ ہے کہ اخبار اور ٹی وی منفی خبروں کی ڈیمانڈ کی وجہ سے دنیا سے کبھی ختم نہیں ہوں گے.