!باباجی

لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی دنیا نے معاشرتی اقدارتہس نہس کر دئے ہیں رہی سہی کثر کورونا نے پوری کر دی ہے اوراقدار کی تبدیلی،انکی جگہ نمود و نمائش کیلئے کھوکھلے عالی شان محل کھڑے کر لئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب لوگ پائیداری کو فوقیت دیا کرتے تھے اور آج لوگ زیبائش و نمائش کو اہمیت دیتے ہیں۔ماضی میں گھر کے بڑے بوڑھے انتقالِ اقدار کی اگلی نسل میں بحالی کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے اور اپنی جگہ رہتے ہوئے معاملات کو نافذ العمل کرنے کیلئے انتہائی سفاکی اور سنگدلی سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔کتابی و علمی فراوانی محدود ہونے کے باعث تحقیق بھی زبانی ہوا کرتی تھی،  ایک بزرگ کی کہی گئی بات دوسرے بزرگ سے کی جاتی تھی، گوکہ مرزا اسد اللہ خاں غالب کا کہنا تھا کہ بوڑھے اور بزرگ میں فرق ہوتا ہے بڑھاپا بڑھتی ہوئی عمر کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ بزرگی کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے یہ عمر کے کسی بھی حصے میں فہم و فراست کے نتیجے  میں دستیاب ہوسکتی ہے۔ اس بات کی گواہی دینے کیلئے ہم میں سے اکثریت غالب کی حمایت کرتی دیکھائی دے رہی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ علم مشاہدے سے حاصل کیا گیا اور تجربے کی بنیاد پر مرتب کیا گیااور قلم، دوات اور کاغذ سے قبل سینہ با سینہ منتقل ہوتا چلا آیا۔ کلام الہی نے انسان کیلئے آسانیوں کے دریچے کھول دیے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ان دریچوں تک رسائی دلائی اور انسانی زندگیوں کو آسانیوں سے بھرپور مزین کردیا۔اشرف المخلوقات ہونے کا زعم انسان میں لاشعوری یا شعوری موجود ہے، اور یہ ہی ایک اہم وجہ ہے کہ جو  “انا”  یا  “میں” کی ترغیب دیتا ہے۔

وقت نے علم کی شکل تبدیل کردی، مشاہدے اور تجربے سے حاصل شدہ علم کتابوں میں منتقل ہونا شروع ہوا اور لکھنے والوں نے تحقیق کا سفر شروع کیا اس سفر کی بدولت جانکاری کی تہہ در تہہ کھلتی چلی گئیں جو کہ آج تک کھل رہی ہیں اور حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے اس امر کی عکاسی کیا خوب کی کہ

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شائد

کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں

انسان جتنا بھی جاننے کا دعویٰ کر لے لیکن قدرت کا کوئی ایک معمولی سا راز سارے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کیلئے کافی ہوتا ہے، لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ انسان اللہ تعالی کی دی ہوئی عقل کو اور اشرف المخلوقات کے مرتبے کو بھول جائے، اس بات کے پیش نظر کائنات میں چھپے رازوں کی کھوج کیلئے رب کائنات نے خود انسان کو اکسایا،تبھی تو اناج سے لیکر معدنی وسائل تک رسائی ممکن ہوسکی ہے۔ جہاں بحر و بر پر انسان نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے اور کسی حد تک اپنی حکمرانی کے جھنڈے گاڑنے کا دعویدار ہوا ہے،  پھر اس نے پرواز شروع کی،  خلاؤں کی کھوج میں نکل کھڑا ہوا،  قدرت نے انسان کی اس جہد کو بھی سراہا اور اسکا پتہ ایسے چلا کہ خلاؤں میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔ آج دعویٰ کرنے والے چاند سے ہوتے ہوئے مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کر رہے ہیں۔ بات نکلتی ہے تو دور تک چلی جاتی ہے ہم تذکرہ کر رہے تھے معاشرے میں سسکتے ہوئے اقدار کی۔گوکہ ایک باشعور طبقہ اس موضوع پر بات کرنے کو اہمیت نہیں دیتا اسکی وجہ بدلتے ہوئے وقت کیساتھ بدلتے رہنا ہے، وہ اس بات پر غور دینا بھی وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں کہ اپنی اقدار سے انحراف ہماری بنیادے کھوکھلی کردیگا۔اقدار سے بغاوت کوئی بری بات نہیں لیکن ان اقدار سے جو صرف خاندانی حدود ہوتی ہیں جہاں بات معاشرے کی اور پھر اسلامی معاشرے کی تو پھر ان اقدار کو عبور کرنا اپنے لئے برائی کو دعوت دینا سمجھا جاتا ہے جوکہ آج کل ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔

اقدار کی رسی سے بندھے رہنے اور اپنے خالق سے تعلق قائم رکھنے والے کو باباجی کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہاں بھی حضرت غالب کا کہا ہوا صادق ہوتا ہے کہ باباجی ہونے کیلئے بھی نا عمر کی کوئی شرط ہے اور ناہی کسی سند کی۔ جہاں تاریخ حق باہو، بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ عبدالطیف بھٹائی، بابا عبدالرحمان،اقبال، رومی اور غزالی جیسے گہرے نایاب اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے گھوم رہی ہے، انہی کی نقشِ قدم پر چلنے والوں میں اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب، واصف علی واصف، علیم الحق حقی و دیگر نے دنیاوی علوم کیساتھ اپنے باباجی ہونے کے دلائل ہمارے لئے چھوڑ رکھے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اعلیٰ دنیاوی علوم پر بھی اپنی دسترس قائم کی دنیا کے مختلف درسگاہوں میں بھی بطور طالب علم اور بطور معلم تعینات رہے۔ لیکن یہ لوگ اپنے جسم کی بودوباش کیلئے حاصل کردہ علم تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے بابوں کے ڈیروں کی خاک چھانی جس کی بدولت یہ لوگ اقدار کی رسی سے ترقی یافتہ ادوار میں بھی بندھے رہے۔

سماجی ابلاغ نے جہاں ہر قسم کی معلومات تک رسائی کو آسان بنایا ہے وہیں ہیجانی کیفیات کو بھی فروغ دینے کا راستہ کھولا ہے۔ عقائد اقدار سے اوپر ہوتے ہیں اقدار کا تعلق معاشرے سے ہے لیکن عقائد کا تعلق مذاہب سے ہوتا ہے۔پاکستان میں رہنے والے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصی طور پر خواتین اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ وہ معاشرتی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے لباس زیب تن کریں ناکہ وہ اپنے مذہب کے اکثریت والے ممالک میں رائج لباس پاکستان میں پہن کر بازاروں میں دیکھائی دیں۔ لیکن بہت ہی افسوس کیساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اب لباس کے معاملے میں یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے کہ زیب تن کرنے والا جسم کن عقائد پر یقین رکھنے والا ہے۔

دنیاوی علوم نے انسان کی نفس پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا، البتہ یہ ضرور بتایا کہ اسے کب کس چیز کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور اسے کس طرح سے سدھارنے کی کوشش کی جاسکتی ہے،دنیاوی تعلیم نے خواہشات کو اجاگر کرنے کا سامان تو پیدا کیا اور روحانیت سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی یا پھر اسے نشے یا اس جیسی شے کی لت سے منسلک کر دیا۔ اس سے یہ ہوا کہ بڑے بڑے علم پر قدرت رکھنے والے تو پیدا ہوتے گئے اور کارگردگی بھی دیکھانے لگے لیکن روح کے سامان سے باز رکھنے کا ہر ممکن حربہ استعمال کیا ہے۔ یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ ہم سب میں ایک باباجی موجود ہوتے ہیں لیکن رنگ و روشنی میں لپٹی اس فریبی دنیا کے ہوکر رہنے کی وجہ سے اپنے اندر موجود باباجی کو چھپائے رکھتے ہیں اور گاہے بگاہے انہیں مارنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔

اگر ہم اپنی اقدار پر قائم رہتے بلکہ انکو اور پروان چڑھاتے تو ہم اپنے باباجی کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے، گلی محلوں کی حفاظت بھی انہی بابا ؤں کے ذمہ ہوتی تھی یہ وہ عظیم ہستیاں تھیں جن کے جسم کمزور مگر حوصلے اور یقین بہت مضبوط ہوا کرتے تھے۔مائیں سب سے بڑی باباجی ہوتی ہیں جو دکھ تکلیف سہتی ہیں اور پرورش میں جھول نہیں آتے دیتیں، حقیقت میں یہ انکا ہی خاصہ ہے کہ باباجی کی تربیت انکی ہی گود میں ہوتی ہے۔ باباجی ایسے ہی کسی کو ترغیب دے دیا کرتے تھے لوگ ایسے ہی گھنٹوں انکے ڈیروں پر بیٹھے رہتے تھے جہاں کی آب و ہوا بھی فیض سے معمور تھی (جیسیا آجکل وائی فائی کے گرد لوگ جمع ہوتے ہیں اور کہیں جائیں تو فورا وہا ں کا خفیہ پتہ پوچھتے ہیں)۔ یہ بابے صرف اتنا جانتے تھے کہ لوگوں کو جوڑے رکھو اور جڑے رہنے کیلئے ایک دوسرے کے کام آنے کی ترغیب دیتے تھے یہی اپنے خالق سے جڑنے کا سبب بنتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ماؤں نے باباؤں کی تربیت بند کردی ہے آج بھی ہمارے ارد گرد بہت سارے باباجی گھومتے پھر رہے ہیں بس حالات کے سبب کچھ مزاج کے مختلف ہیں، کچھ لب و لہجے کے مختلف اور کچھ لباس کے لیکن ہیں ہمارے درمیان ہی بس تھوڑا سا موبائل کا وائی فائی بند کرکے کچھ دیر کیلئے اپنے آپ سے مل لیں تو شائد ایک باباجی سے تو فوری ہی ملاقات ہوجائے۔ اللہ تعالی ہمیں آسانیاں بانٹنے کی توفیق دے اور ہمارے آسانیاں پیدا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔