وعدہ، دعوی اور مہنگائی

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ اپنے لائو لشکر کے ساتھ محل سے نکل رہا تھا ،شدید سردی کا موسم تھا ،بادشاہ نے دیکھا کہ ایک چوکیدارعام سے کپڑوں میں ملبوس اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔بادشاہ نے چوکیدار کو اپنے پاس بلا کر پوچھا کہ کیا تمہارے پاس سردیوں کے کپڑے نہیں ہیںتو چوکیدار مودب انداز میں فرشی سلام بجا لاتے ہوئے جواب دیا کہ نہیں حضور میرے پاس سردی اور گرمی کا ایک ہی لباس ہے جو میں ہمیشہ زیب تن کرتا ہوں۔بادشاہ کو عجب لگا اور اس دربان سے وعدہ کر لیا کہ سفر سے واپسی پر آپ کو سردیوں کا ایک جوڑا عطا کیا جائے گا۔بادشاہ بوقت شام جب اپنی مہم سے واپس آیا تو اپنے معمولات میں ایسا مصروف ہوا کہ اس دربان سے کیا ہوا وعدہ بھول گیا۔اگلی صبح جب بادشاہ بیدار ہوا تو اس نے دیکھا کہ درباریوں میں چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں۔بادشاہ کے طلب کرنے پر وزیر خاص نے عرض کیا کہ حضور ہمارے دربار کا فلاں چوکیدار رات سردی کی وجہ سے موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا ہے۔بادشاہ نے حکم صادر فرمایا کہ مجھے موقع واردات پر لے جایا جائے۔جب بادشاہ سلامت وہاں پہنچے تو اس نے عجب منظر دیکھا ،کہ زمین پر چوکیدار کی انگلیوں سے ایک عبارت تحریر تھی کہ ’’بادشاہ کے ایک گرم لباس کے وعدہ نے میری جان لے لی‘‘

گذشتہ روز جب پی ٹی آئی کے وزیر اطلاعات شبلی فراز جب ایک پریس کانفرنس میں یہ فرما رہے تھے کہ سب معاشی اشاریہ مثبت ہیں ماسوا ایک مہنگائی کے تو مجھے عمران خان بشمول کابینہ میں بیٹھے بہت سے وزرا کے وعدے یاد آگئے۔جب انہوں نے بجلی کے یونٹ سے لے کر آتے دال چاول کے نرخ بڑھ جانے سے واویلا مچا یا تھا اور ساتھ یہ بھی وعدہ فرمایا تھ اکہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت آتی ہے تو صرف ایک سو دن میں تبدیلی لے آئوں گا۔خیر میرا اس وقت بھی یہی ماننا تھا کہ پاکستان میں ایک سو دن کیا ایک صدی میں بھی تبدیلی آجائے تو کسی طور ایک نعمت سے کم نہیں ہوگا۔وہ اس لئے کہ ہمارے ملک کاکو ئی نظام بھی اپنی درست سمت میں محو سفر نہیں۔ایسے میں نظام کو تبدیل کرنے کی باتیں اور وہ ایک تیسری سیاسی قوت کی زبان سے،تو میرا خیال تھا کہ اس بار مکمل تبدیلی نہیں لیکن کچھ نا کچھ ضرور ہو کر رہے گا۔اور کچھ نہی تو عمران خان صاحب دو طبقات کو سہولیات بہم پہنچانے کے لئے ضرور میدان عمل میں اتریں گے ان میں سے ایک تارکین وطن جن کے بارے میں ہمیشہ سے ہی وزیر اعظم نے کلمہ تحسین فرمایا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں نے انہیں کینسر ہسپتال سے لے کر ایجوکیشن کمپلیکس تک کبھی مایوس نہیں کیا اور دوسرا مزدور طبقہ۔لیکن افسوس کے ساتھ میں یہ لائنیں لکھ رہا ہوں کہ عمران خان نے اوور سیز پاکستانیوں کے لئے جو کیا مجھے بطور ایک اوور سیز پاکستانی کے دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے لئے سابقہ حکومتوں سے بھی برا سلوک کیا جا رہا ہے۔اور مزدور طبقہ کو دی جانے والے مراعات کا اندازہ تو شبلی فراز کی پریس کانفرنس سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔

میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ ملک کا معاشی اشاریہ ٹھیک سمت میں جا رہا ہے،زرمبادلہ میں بہتری ہو رہی ہے،بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو اہے،ترسیلات زر توقع سے بڑھ کر ہیں،گندم اور چینی کا سٹاک بھی عوام کی ضروریات کے مطابق حکومت کے گودام میں موجود ہے۔اگر ہر سمت دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں تو پھر ملک میں مہنگائی کیوں ہے،مزدور،غریب اور یومیہ اجرت کے حامل افراد کیوں شور مچا رہے ہیں کہ گزار ہ نہیں ہوتا۔دال چاول سے لے کر پٹرول تک شائد ہی کوئی اشیائے ضروریہ یا اشیائے خور ونوش ہو جس کے بارے میں عوامی حلقے مطمئن ہوں۔ابھی بھی حا لیہ کابینہ کے اجلاس میں محض فیصلہ ہوا ہے کہ اس بارے میں پیکجز کا اعلان کیا جائے گا۔اور کابینہ کے ذمہ لگایا گیا ہے کہ وہ اس بارے میں جلد از جلد رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کریں۔

اگر سابقہ حکومتوں کی معاشی تاریخ کو دیکھیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ پیکجز اور رپورٹس سے مراد ہوتا ہے کہ نوازنا یا پھر مسئلہ کے حل میں تاخیر کرنا۔تاکہ مسئلہ یا معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے۔کیونکہ کہا جاتا ہے کہ justice delayed,justice denied ۔حکومت کو چاہئے کہ دوسال کے عوامی مسائل کو تو آپ نے کرونا اور حزب اختلاف کی کرپشن کی نذر کردیا ہے،اب آنے والے سالوں میں اگر آپ نے عوامی مسائل خاص کر مہنگائی کے جن کو قابو نہ کیا تو وہ لوگ جو کل تک آپ کے ساتھ کھڑے تھے کچھ بعید نہیں کہ وہ مخالفین کی صفوں میں دکھائی دیں۔اگرملک کا ساٹھ فیصد نوجوان طبقہ آپ کو وزیر اعظم بنا سکتا ہے تو آئندہ الیکشن میں یہ نوجوان مخالف دھڑوں میں شامل بھی ہو سکتے ہیں۔اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں آپ ہی وزیر اعظم ہوں تو مزدور،غریب اور پسے طبقہ کو جینے اور زندہ رہنے کا حق دینا ہوگا۔آئے روزآسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں ،اشیائے ضروریہ کو عوام کی پہنچ سے دور کرتی جا رہی ہیں۔اگر حکومت مہنگائی،قیمتوں میں گرانی اور آئے روز سرمایہ کار کی من مانیوں کو نہ روک سکی تو غریب مزدور کے یہی ہاتھ حکومت کے گریبانوں تک بھی جا سکتے ہیں۔ویسے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پی ٹی آئی کا ہر وزیر اورمشیر اس بات کو مانتا ہے کہ مہنگائی ہے اور اس کے لئے ہم پلاننگ بھی کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں عملی طور پر اس کا اطلاق نظر نہیں آرہا۔

اس لئے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو ایک سو چھبیس دنوں کے دھرنے میں عوام سے کئے ہوئے وعدے،دعوے اورحقیقت کا ادراک اور یاد دہانی کرواتے رہنا چائے ایسا نہ ہو کہ عوام اس بار تیسری قوت کے ہاتھوں بھی بے وقوف بن جائے۔انہیں یاد کرواتے رہنا چاہئے کہ امیر اس حکومت میں بھی امیر تر اور غریب اب کے بار بھی غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔کب تک غریب عوام اس شعر کا مصداق بنے رہیں گے۔

میری گندم خریدنے والو

تھوڑا آٹا ادھار دو گے

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔