بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ گلگت بلتستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اسے ایک صوبہ بنا دیا جائے۔ اور یہ کہ اس وقت گلگت بلتستان کو صوبائی حیثیت کا حاصل نہ ہونا ہی وہاں کی عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا باقی صوبوں کے تمام شہر یا علاقے بہت خوشحال اور مسائل سے آزاد ہو گئے ہیں کہ اگر گلگت بلتستان کو بھی صوبہ بنا دیا جائے تو وہ بھی ترقی کی بلندیوں کو چھونے لگے گا؟ پھر یہ بات بھی محل نظر رہے کہ کیا گلگت بلتستان کو صوبے کی حیثیت دے دینے کے اثرات صرف گلگت بلتستان تک ہی محدود ہوں گے ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا تعلق ریاستی سطح کے کسی حساس نوعیت کے معاملے سے بھی ہو ؟
وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب کا حالیہ بیان شائع ہوا ہے کہ ۱۶ ستمبر ۲۰۲۰ کو حکومتی وزراء، عسکری قیادت اور حزب اختلاف کے نمائندگان کی ملاقات ہوئی جس میں ن لیگ کے شہباز شریف، خواجہ آصف اور احسن اقبال، پی پی پی کے بلاول زرداری اور شیریں رحمٰن، جماعت اسلامی کے سراج الحق اور اسی طرح جے یوآئی ایف اور اے این پی کے نامور اراکین نے شرکت کی۔ اس ملاقات میں گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثیت دینے کے حوالے سے بات ہوئی تا کہ اس معاملہ میں حزب اختلاف کو بھی اعتماد میں لیا جا سکے۔ایسا کرنا اس لئے ضروری تھا کیونکہ گلگت بلتستان کو صوبہ میں تبدیل کرنے کا معاملہ آئین سے متعلق ہے اور آئین میں تبدیلی کے لئے دو تہائی اکثریت چاہیئے ہوتی ہے جو اس حکومت کے لئے اپوزیشن کی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس ملاقات میں حزب اختلاف کی جانب سے ایک سینئر رکن کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا دینے کے نتائج کو بھی دیکھنا ہو گا کہ کہیں اس سے ملک کے کشمیر سے متعلق موقف کو ٹھیس نہ پہنچے۔لیکن حزب اختلاف میں سے اکثریت کی دلچسپی اس معاملے میں تھی کہ گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثیت آیاوہاں آنے والے انتخابات سے پہلے دی جائے یا بعد میں۔ اس سلسلہ میں حزب اختلاف کا موقف یہ تھا کہ ایسا انتخابات کے بعد کیا جانا چاہیئےجن کا انعقاد ۱۵ نومبر ۲۰۲۰ کو ہونا طے پایا ہے کیونکہ انتخابات سے بالکل پہلے حکومت کا گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثیت دینا در اصل انتخابات میں لوگوں کے رویے کو متاثر کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے ایک علیحدہ اکائی کے طور پر دیکھنا اس کی تاریخی حیثیت کو یکسر نظر انداز کر دینے کے مترادف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام کا تمام علاقہ جو کہ موجودہ جموں ، وادیٔ کشمیر، لداخ، آزاد کشمیر، گلگت،بلتستان اور دیگر شمالی علاقہ جات پر مشتمل ہے ،اس سب پر بر صغیر کی تقسیم سے پہلے برطانیہ کے ما تحت صرف ایک حکومت قائم تھی جس کا حاکم ہندو مہاراجہ ہری سنگھ تھا۔ تقسیم ہند پر اس تمام علاقے میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہونے کے باعث اس کو پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ لیکن عوام کی اس رائے کے بر خلاف مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کے نتیجے میں اس میں سے بعض علاقوں جیسا کہ جموں، وادیٔ کشمیر اور لداخ پر بھارت نے قبضہ جما لیا، جس سے اس سارے تنازعے کا آغاز ہوا ۔
ہندو مہاراجاؤں کی اس خطہ ٔ ارض پر حکومت سے پہلے ۷۰۰ سال سے مسلمانوں کی حکومت چلی آ رہی تھی اس لئے یہ تمام علاقہ اسلامی تہذیب میں ڈھل چکا تھا اور اس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔ سولہویں صدی عیسوی میں تو یہ خطہ مسلم مغل سلطنت کے ایک صوبے کی سی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ لیکن مغلیہ سلطنت کے کمزور پڑنے کے ساتھ ساتھ یہ علاقے ایک ایک کر کے مسلم حکمرانوں کے ہاتھ سے نکلتے گئے۔ احمد شاہ اس خطے کا آخری مسلمان حکمران تھا جس کی حکومت بلتستان کے علاقے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ ۱۸۴۰ ءمیں جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قائم کردہ سکھ ریاست نے اپنے مرکز پنجاب سے شمال کی جانب مزید پھیلاؤ کی مہم شروع کی تو جموں میں اس کے قائم کردہ گورنر گلاب سنگھ کے لشکر نے بلتستان کو بھی فتح کر لیا۔ یوں یہ تمام شمالی علاقہ رنجیت سنگھ کی سکھ ریاست کے گورنر گلاب سنگھ کے زیر تسلط آ گیا۔ پھر ۱۸۴۶ میں جب برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کے خلاف جنگ میں سکھ ریاست کا خاتمہ کر دیا تو انہوں نے اس تمام علاقے پر گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا کر اپنے حکمران کے طور پر نصب کر دیا، جس سے اس خطے پر”ڈوگرہ راج” کا آغاز ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت میں اور پھر برطانوی راج میں اس پورے خطے کو سرکاری طور پر “ریاست جموں و کشمیر” کہا جا تا تھا۔ برطانوی استعمار کے زیر تحت اس علاقے پر مہاراجاؤں کی حکومت کا یہ ڈوگرہ راج تقسیم ہند تک کم و بیش اسی انداز سے چلتا رہا۔
بر صغیر پاک و ہند میں برطانوی استعمار کا انتظامی ڈھانچہ دہرے طرز کا تھا۔ تقسیم ہند کے وقت پورے بر صغیر کے ساٹھ فیصد علاقے ایسے صوبوں پر مشتمل تھے جن پر برطانیہ کی براہ راست حکومت قائم تھی جبکہ ۴۰ فیصد علاقہ ایسی نیم خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا جن پر برطانیہ پہلے سے موجود حکمرانوں کے ذریعے بلواسطہ طور پر حکومت کرتا تھا۔برطانوی راج کے دوران ” ریاست جموں و کشمیر” کا تعلق بھی موخر الذکر قسم کے علاقے سے تھا۔ برطانیہ جب ۱۹۴۷ میں بر صغیر پاک و ہند سے رخصت ہوا تو اس قسم کے علاقوں کے بارے میں یہ طے ہوا تھا کہ وہ اپنی عوام کی مرضی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ ضم ہو جائیں گے، جو کہ دو قومی نظریے کے عین مطابق تھا۔ اگرچہ اس پوری” ریاست جموں و کشمیر” میں، جس میں گلگت اور بلتستان کا علاقہ بھی شامل تھا، اکثریت مسلمانوں کی تھی جو پاکستان کے ساتھ ضم ہونا چاہتے تھے لیکن اس کے باوجود تقسیم ہند کے بعد وہاں کے مہاراجہ نے اس ریاست کو پاکستان میں ضم نہ کیا۔ چنانچہ کشمیر کے ضلع پونچھ اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کی جانب سے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف کچھ عرصہ پہلے سے اٹھنے والی بغاوتیں اب زور پکڑنا شروع ہو گئیں۔ ان حالات کے پیش نظر اور کشمیر کے مسلمانوں کو ان کی خواہشات کے مطابق پاکستان میں ضم کرنے کی غرض سے پاکستان کی افواج ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۷ کو کشمیر میں داخل ہو گئیں۔ یہ دیکھتے ہی ہری سنگھ نے بھارتی حکومت سے اپنے الحاق کی درخواست کی جو کہ بھارت نے فی الفورقبول کر لی اور اپنی افواج کو ائر لفٹ کرا کر کشمیر میں اتارا۔ اس وقت پاکستان کی افواج موجودہ لائن آف کنٹرول پر واقع اری کے مقام تک پہنچ چکی تھیں۔ وہیں پر بھارتی افواج نے پہنچ کر مزاحمت شروع کی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ کا آغاز ہوا۔ اس کے بر عکس گلگت ایجنسی میں گلگت اسکاؤٹس نے ہری سنگھ کے مقرر کردہ گورنر کا تحتہ پلٹ دیا اور پھر مختلف قبائل اور افواج پاکستان کی مدد سے ۱۹۴۸ کے وسط تک گلگت کے علاوہ بلتستان کا علاقہ بھی ہری سنگھ کے قبضے سے آزاد کر لیا۔
ادھر بھارت یہ مسٔلہ لے کر اقوام متحدہ پہنچ گیا اور جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔ اقوام متحدہ نے ۱۳ اگست ۱۹۴۸ کو قرارداد نمبر ۴۷ منظور کی جس میں سب سے پہلی فرصت میں مکمل جنگ بندی کا اعلان کیا گیا جس کے نتیجے میں موجودہ لائن آف کنٹرول وجود میں آئی جو آزاد کشمیر ،گلگلت اور بلتستان کو بقیہ علاقوں یعنی جموں، وادیٔ کشمیر اور لداخ سے علیحدہ کرتی ہے کیونکہ یہ وہ حد تھی کہ جس کے ایک طرف اس وقت پاکستانی افواج اور دوسری طرف بھارتی افواج خیمہ زن تھیں۔ اقوام متحدہ کی اس قرار داد کے مطابق دوسرے مرحلہ میں پہلے پاکستان کو قبائل سمیت اپنی ہر قسم کی افواج کا اس پورے علاقے بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان، سے انخلا ء کرنا ہے جس کے بعد بھارت نے اپنی افواج کا صرف محدود انخلا ء کرنا ہے۔ اور پھر تیسرے مرحلے میں وہاں کے لوگوں کی مرضی کے مطابق اس تمام علاقے کے مستقبل کا تعین کیا جانا ہے۔
اگرچہ پاکستان کو اقوام متحدہ کے اس تجویز کردہ حل پر تحفظات تو ضرور ہیں کہ اگر پاکستان نے اس علاقے سے مکمل انخلاء کیا تو اس بات کا کیا اعتبار ہے کہ بھارت اس تمام علاقے پر قبضہ نہیں کر لے گا؟ لیکن جس بات سے پاکستان نے ہمیشہ سے اتفاق کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس علاقے کے بارے میں فیصلہ وہاں کے لوگوں کی استصواب رائے کے مطابق ہی ہونا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے اس موقف کے مطابق بھارتی حکومت کا یک طرفہ طور پر ۵ اگست ۲۰۱۹ کو آئینی ترمیم کے ذریعے اس علاقے کا اسپیشل اسٹیٹس ختم کر کے اسے اپنی یونین میں ضم کر لینا ایک سراسر غلط اقدام ہے جس کو پاکستان مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔ لیکن یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اگرآج پاکستان بھی یک طرفہ طور پر اپنے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے اس علاقے کے ایک حصے یعنی گلگت اور بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ صوبہ قرار دے دیتا ہے تو پھر پاکستان کس منہ سے بھارت کو یہ کہہ سکے گا کہ اس کا جموں، کشمیر اور لداخ کو ضم کرنے کا اقدام غلط تھا ؟ کیونکہ پھر بھارت یہ کہنے میں حق بجانب ہو گا کہ چونکہ پاکستان نے بھی اس علاقے کا ایک حصہ یک طرفہ طور پر اپنے ملک میں ضم کر لیا ہے تو اب پاکستان کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ بھارت کے ویسے ہی اقدام پر کسی قسم کا کوئی اعتراض اٹھائے!
تو اگر واقعی یہ بات ہے کہ ہم نے گلگت اور بلتستان کے لوگوں کو حقوق دینے ہیں تو یہ کام تو انہیں صوبہ بنائے بغیر بھی بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اصل بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ امریکہ چین کے ساتھ جاری اپنی معاشی جنگ میں چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خطے میں چین کے مقابلہ میں کسی مقامی طاقت کو کھڑا کرے جو چین کو چیلنج کر سکے۔ اس کام کے لئے اسے بھارت سب سے موزوں محسوس ہوا ہے کیونکہ بھارت کے چین کے ساتھ پہلے سے ہی مختلف مقامات پر سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ جبکہ پاکستان چین کے ساتھ ہمیشہ سے دوستانہ تعلقات استوار رکھےہوئے ہے ۔ لہٰذا امریکہ چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لئے اس خطے میں بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مسٔلہ کشمیر حل کیا جائے تا کہ بھارت کی آدھی کے قریب فوج جو اس وقت کشمیر میں کھپی ہوئی ہے اور بھارت کی معیشت پر ایک بڑا بوجھ ہے،اسے اس مسٔلہ سے چھٹکارا دلا کر بھارت کے اندرونی استحکام کی طرف اور چین کی طرف متوجہ کیا جا سکے۔
لیکن مسٔلہ کشمیر کا یہ “امریکی حل “وہ حل ہر گز نہیں ہے جوپاکستان کے موقف کے مطابق ہے۔ بلکہ یہ وہ حل ہے جو اس پورے علاقے کی بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم پر مبنی ہے، اس طرح سے کہ جو علاقہ اس وقت بھارت کے پاس ہے وہ بھارت کا ہو جائے اور جو علاقہ پاکستان کے پاس ہے وہ پاکستان کا۔لہٰذابھارت کی جانب سے پہلے جموں، کشمیر اور لداخ کو قانونی طور پر اپنی یونین کا حصہ بنانا اور اب پاکستان کا گلگت اور بلتستان کو قانونی طور پر اپنا صوبہ قرار دینے طرف بڑھنا دراصل اسی “امریکی حل” کی ایک کے بعد دوسری آنے والی کڑی ہے ۔
اس ضمن میں یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کا گلگت اور بلتستان کو باقاعدہ اپنے ایک صوبے کی حیثیت دے دینا کشمیری مسلمانوں کی پاکستان کے ساتھ ضم ہونے کی تہتر سالہ طویل اور انتہائی کٹھن جدو جہد کو اور اس سلسلے میں ان کی دی جانے والی جان، مال اورآبروؤںکی قربانیوں کو نظر انداز کر دینے کے مترادف ہے؟ اور اس کے ساتھ ساتھ ان مظلوموں کو قانونی طور پر اور ہمیشہ کے لئے اس انتہا پسند اور جارح بھارتی ریاست کے ظلم و بربریت کے حوالے کر دینے کے مترادف ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کا یہ اقدام پاکستان کی جانب سے اپنے ہی موقفسے خود دستبردار ہو جانے کے مترادف ہے ، وہ موقف جس کے مطابق اس تمام علاقے کو وہاں کے لوگوں کی استصواب رائے کے مطابق پاکستان میں ضم ہونا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کا یہ اقدام جانے یا پھر انجانے میں کشمیر کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سودا کر دینے کے مترادف ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس سے بڑی حماقت کی بھلا اور کیا بات ہو سکتی ہے۔۔۔