ناجانے کتنے پل اسے وہیں لیٹے لیٹے بیت گئے،اسے خود بھی خبر نہیں تھی، بس کچھ باتیں تھیں، کچھ لمحے تھے، جو آج بھی اس کے پاس رکے ہوئے تھے۔
وہ اپنی ہی دنیا میں گم تھی کہ اچانک باہر کے شوروغل سے حال میں لوٹ آئی۔اور ایک ٹھنڈی آہ بھری کہ اب پھر سے وہی سب کام اس کے منتظر تھے۔
اسے سب کاموں میں سے برتن دھونا بہت پسند تھا ۔وہ اکژ اسے کہا کرتی تھی اسفند مجھے تمھارے خیالوں میں گم ہو کر برتن دھونا بہت پسند ہے۔اور وہ اس کی بات پہ اس کو پاگل کہہ کر ہنس دیا کرتا تھا، آج انھی برتنوں کو دھوتے اس کی آنکھوں سے یادوں کا سیل رواں تھا۔
حورعین کو اس سے کب محبت ہوئی اسے نہیں پتہ تھا ہاں وہ کب دل سے اترا ،یہ قصہ اذیت ناک تھا۔اس کا دل اس کے ساتھ ہمراہ ہونے کے لیےمچلتا تھا، اور وہ کہیں کسی اور کا ہونے کے لیے مچل رہا تھا۔
جب وہ بدلنے لگا تھا تو وہ لڑتی تھی،گلہ بھی کرتی تھی شکوہ بھی اور پھر جب اس نے منانا چھوڑ دیا تو خود ہی مان جاتی تھی۔
اور پھر آہستہ آہستہ انتظار زہر بن کر قہر ڈھانے لگا،اس کا بلکتا سسکتا دل خواب ٹوٹنے پر ماتم کرنے لگا۔
لیکن انسان کو ہی لگتا ہے بس وہ سنبھل نہیں پائے گا، زندگی رک جائیگی پر زندگی جمود کا شکار نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی جائے تو اسے بہتے وقت کے ریلے میں بہنا ہی پڑتا ہے۔
اس نے بھی اس کے بدل جانے کو تسلیم کر لیا تھا، دل مضبوط اور لبوں پر قفل ڈال لیے تھے، پر آج بھی دل ہی دل میں اسکا من مسافر ہے، ناجانے کتنا عرصہ بیت گیا ہے اسے نہ آنا تھا نہ آنا ہے پر اک میرا دل آج بھی اسی کا مسافرخانہ ہے_
دل مسافر من مسافر
اس کے سنگ ہر پل مسافر
میں مرجھا جاؤں جو تو بچھڑ جاوے،
میں کھل جاؤں جو تو ہو مسافر
طویل ہیں حیات کی تلخیاں
کٹ جاوے جو تو ہو مسافر۔