رفعت جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی تو گھبراہٹ کے مارے چیخنے چلانے لگی۔
بچاؤ بچاؤ امی! امی ی ی ی ی… کیا مسئلہ ہے؟ رفعت ایسے کیوں چلا رہی ہو، یہ چڑیا گھر نہیں ہے۔ آپی نے آتے ہی اپنی شیر جیسی نظریں رفعت پر گاڑ دیں۔ میں نے امی کو آواز دی تھی آپ کیوں اتنا جل بھن رہی ہیں، وہ منہ لٹکا کر بولی۔
اوہ ہو! اب تمہیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ امی بازار گئی ہیں اور ان کے آنے تک گھر کی سربراہی میرے ذمے ہے۔ چلو شاباش جلدی سے بتاؤ کیا مسئلہ ہے، آپی نے بیتابی سے پوچھا۔
ہونہہ، مسئلہ نہیں تکلیف ہے اور وہ بھی آپ کے اس بھائی کو، اس نے منہ بسورتے ہوئے پلنگ کے نیچے اشارہ کیا۔ کیا کہا تم نے؟ آپی نے اپنی آنکھیں ابلے ہوئے انڈے کی طرح باہر نکالیں۔ خبردار جو آئندہ تم نے میرے معصوم سے بھائی کے بارے میں کچھ اول فول کہا۔ وہ سیخ پا ہوگئیں۔ اچھا چلیں چھوڑ دیں غصہ، رفعت نے مسکرا کر کہا تو آپی بھی مسکرا گئیں۔
اچھا بتائیں کیا ہوا؟ آپی کے اصرار پر وہ چپ نہ رہ سکی۔ وہ پلنگ کے نیچے چوہا ہے، اس نے بمشکل تھوک نگلتے ہوئے کہا۔ کیا کہا چوہا، ارے بدھو! یہ بات اب نہیں پہلے بتانی تھی۔ آپی گرج دار آواز نکال کر دھاڑیں۔ اب کیا کریں گے؟ رفعت معصومیت سے بولی۔ اوہ ہو! تمہیں یہ بھی نہیں پتا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ اس نے بھول پن سے نفی میں سر ہلادیا۔
اب منہ پر انگلی رکھو اور بھاگو، یہ سننے کی دیر تھی کہ رفعت بے توقیر ایسے دوڑ لگائی جیسے مقابلہ بازی ہورہی ہو۔ اب کبھی رفعت آگے آپی پیچھے تو کبھی آپی آگے اور رفعت پیچھے، صحن سے برآمدہ اور پھر کچن کی طرف ان کی دوڑ مسلسل جاری تھی، دوڑ دوڑ کر جب کمزور اور لاغر ٹانگوں نے جواب دینا چاہا تو رفعت کے دماغ میں ایک طریقہ آیا، اس نے صحن میں پڑی حمدان کی سائیکل پر آپی کو سوار کیا اور خود سائیکل چلانی شروع کردی، آپی بھی بھولے شاہ کی طرح سائیکل کے پیچھے رونی صورت بنائے بیٹھی رہیں۔
اتنے میں گھر کا مرکزی دروازہ کھلا، دونوں کی نظریں دروازے پر ٹھہر گئیں۔ سامنے چیزوں سے لدے پھدے شاپر تھامے امی آتے ہوئے دکھائی دیں۔ آپی کے چہرے کی سرخ وسپید رنگت زرد ہوتی دیکھی تو وہ بھی حیرت سے دنگ رہ گئیں۔ یا اللہ خیر، کیا ہوگیا میری بچیوں کو، یہ پسینے کیوں چھوٹ رہے ہیں، امی دروازے پر کھڑی کھڑی ہی ان کا جائزہ لینے لگیں۔
امی! چچ۔۔۔ چو۔۔۔ چوہا۔ آپی سے اتنا ہی کہا گیا۔ ارے شرم سے ڈوب مرو، اپنی ماں کو چوہا کہہ رہی ہو۔ امی نے مصنوعی خفگی ظاہر کی۔ اوہ ہو امی آپ چوہا نہیں، ہمارے گھر میں چوہا ہے۔ انہوں نے اپنا ماتھا پیٹا۔ ہائے اللہ! چوہا وہ بھی ہمارے گھر میں، امی بیساختہ منممائیں۔ اب یہ غیر مہذب قوم آنے سے پہلے اجازت نامہ لینے سے تو رہی، آپی کے نفرت سے اپنی ناک سکیڑی۔ تمہارے ابا سے کہہ کر آج ہی چوہے مار دوا منگواتی ہوں ، یاد ہے نا ہمارے پرانے گھر میں ایک دن کہیں سے زخمی چوہیا آگئی تھی۔
میں نے سوچا جہاں ہم گھر میں پانچ افراد رہتے ہیں وہاں ایک اور سہی، زخمی کو پناہ دینے کا بھی تو بہت اجر ہے نا، وہ کمبخت ٹھکانہ پکا کرتے ہی اپنا لاؤلشکر بھی ساتھ لے آئی، اب میںکیکیلی اتون کس کس سے نمٹتی، گھر کا کوئی کونا کھدرا ایسا نہیں بچا تھا جو ان کی پہنچ سے دور ہو۔ پیٹیوں کے اندر، بستروں کے نیچے اور وہ جو میرے جہیز کے کپڑوں میں ہلکے گلابی رنگ والی ساڑھی تھی نا، جس پر سنہرے رنگ کی گوٹہ کناری لگی ہوئی تھی، ارے وہی جو میں نے تمہیں میٹرک میں امتیازی نمبروں پر دینے کا وعدہ کیا تھا، امی نے یاد دہانی کروائی۔ ہاں ہاں! مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، خوشی سے آپی کی بانچھیں پھیل گئیں، وہ بھی کتر ڈالی اس دندناتی قوم نے، یہ سنتے ہی آپی کو منہ لٹک گیا۔ مجھ بلڈپریشر کی مریضہ کے صبر کا امتحان لے رہے تھے، مجبورا ہمیں وہ کرائے کا گھر چھوڑ کر یہاں آنا پڑا۔
چلو چھوڑو ان باتوں کو، یہ بتاؤ تم نے چوہا دیکھا تو ہے نا، کس طرف گیا ہے وہ بربادی کا ضامن ؟ امی نے آستینیں اوپر چڑھا کر ہاتھ میں ڈنڈا پکڑتے ہوئے کہا۔ وہ…وووو… دراصل میں نے چوہے کو تو نہیں دیکھا، رفعت نےبتایا تھا کہ اس کے پلنگ کے نیچے چوہا ہے۔ بالکل امی! میں نے خود دیکھا، مم… میرا مطلب میں نے خود اس کی آواز سنی۔ وہ ڈرامائی انداز میں چشمہ ناک کی نوک سے اوپر کھسکاکر بولی۔ کیا کہا چوہے کی آواز ؟ ہاہاہا… دیکھا ایک اور شوشہ چھوڑ دیا آپ کی بیٹی نے، اچھا چلو بتاؤ چوہے کی آواز کیسی تھی ؟ آپی نے سائیکل سے اتر کر امی کی ’’مشیر خاص‘‘ ہونے کا عہدہ سنبھالتے ہوئے کہا۔ پلنگ کے نیچے سے کسی ٹھوس چیز کو کترنے کی آواز آرہی تھی۔ یہ کام چوہا ہی انجام دے سکتا ہے۔ رفعت اپنے ذہن پر دباؤ ڈالتے ہوئے بولی۔
سفید جھوٹ، وہ بولی۔ ارے یہ سفید نیلے پیلے جھوٹ میں نہیں بولتی، اس نے اپنا دفاع کرنا چاہا۔ ہاں مگرررر۔۔۔ سیاہ جھوٹ بولنے کی شوقین تو ہونا۔ آپی کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ اچھا اب بس بھی کردو، یاد ہے نا فرخندہ کی بیٹی کی شادی پر بھی تم دونوں یوں ہی لڑائی جھڑپ کرکے بیٹھ گئی تھی، اور وہ نگوڑ ماڑی آمنہ ہے نا شکیلہ چچی کی بھانجی۔۔ اپنے بچوں کی فرمانبرداری کے قصیدے پڑھ پڑھ کر میرا دل جلا رہی تھی۔ امی نے جلے کٹے انداز میں اپنے دل کے پھپھولے چھوڑے۔
شگفتہ! تم میرے ساتھ اس کمرے میں آؤ۔ کک۔۔۔ کیا۔۔ مم۔۔۔ میں آپی کانپ اٹھی۔ رفعت تم بھی آؤ ، تاکہ کوئی بھی مشکل درپیش ہوئی تو ہم ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔ کیا مصیبت ہے بھئی، ہم قلعہ فتح کرنے جارہے ہیں جو مشکل درپیش ہو، خیر چلو۔ امی غصے سے بدبدائیں۔
اتنے میں گھر کا مرکزی دروازہ کھلا اور حمدان باہر سے مسمسی سی صورت بنائے گھر میں داخل ہوا۔ حمدان! کیا ہوا ہے، کسی نے مارا ہے کیا ؟ اس کے نین ٹپ ٹپ بہتے دیکھ کر آپی نے بڑے دلار سے پوچھا۔ امی! میرا کھلونا گم ہوگیا ہے۔ یہ کہتے ہی اس کی آنکھوں سے جھم جھم برسات شروع ہوگئی۔ کدھر گم ہوگیا ، رکھا کہاں تھا ؟ امی پریشان کن لہجے میں بولیں۔ پتا نہیں رات کو رفعت آپی کے کمرے میں کھیل رہا تھا، اچانک نیند آگئی۔ صبح سے میں کئی بار آپی کے کمرے میں ڈھونڈ چکا ہوں مگر وہ مل ہی نہیں رہا۔ یہ کہتے ہی ایک بار پھر اس نے اپنا مخصوص راگ الاپنا شروع کردیا۔ چلو بیٹا شاباش اپنے دوستوں کے ساتھ جاکر کھیل لو، ان کے کھلونے بھی توبالکل آپ کے جیسے ہی ہیں۔ امی نے نرمی سے سمجھایا۔ میں گیا تھا، حارث کہتا ہے کہ تم اپنے کھلونے لیکر آؤ، مجھے تنگ نہ کرو۔ اوہ ہو! یہ تو غلط بات ہوئی، اچھی بچے ہمیشہ مل کر کھیلتے ہیں۔
آپی نے پیار سے اس کے گالوں کو پچکارتے ہوئے کہا۔
آئے ہائے! دفع کرو اس کو، میرے بیٹے کے لئے کونسا کھلونے کی کمی ہے۔ چلو میری جان تمہیں مارکیٹ سے بہت پیارے کھلونے لیکر دیتی ہوں۔ نہیں مجھے بالکل ویسا ہی کھلونا چاہیے۔ وہ اپنی ضد پر اڑ گیا۔ حمدان! امی کو تنگ مت کرو، یہ تو بتاؤ تمہارا کھلونا تھا کیسا ؟ رفعت نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے پوچھا۔ مجھے میرا چابی والا چوہا چاہیے، جو لکڑی کو کاٹتا بھی ہے۔ ہونہہ! چوہے نے ہمارا سکون برباد کر رکھا ہے اور یہ نوابزادے ہیں کہ ایک چوہے کے لیے آنسوں کی ندیاں جاری کیے ہوئے ہیں۔ امی زیرلب بڑبڑائیں۔
یہ موتی بڑے انمول ہیں، انہیں مٹی میں نہ رول۔ رفعت نے شاعرانہ انداز اختیار کیا۔ میرے پیارے بھائی! کچھ دیر آرام سے بیٹھ جاؤ، میں تمہیں ایسا چوہا لاکر دوں گی جو صرف لکڑی کو ہی نہیں بلکہ تمہارے دوستوں کو بھی کاٹ سکتا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ مارے خوشی کے اچھل پڑا اور صوفے پر بیٹھ کر بیتابی سے گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئیوں کو تکنے لگا۔ اری جھلی! اب چل بھی لے، امی نے اس کی کمر پر ہلکی سی چپت رسید کی۔
کمرے میں قدم رکھتے ہی امی دم بخود سی رہ گئیں، سارا سامان بکھرا پڑا تھا، جگہ جگہ کپڑے گئے ہوئے تھے، گاؤ تکیے کمرے کے بیچ و بیچ محو استراحت تھے۔ یا اللہ خیر! گند میں رہنے کی عادت نہیں گئی تمہاری، جانور بھی بیٹھنے سے پہلے اپنی جگہ صاف کرتا ہے۔ امی نے غصیلی نظروں سے گھورا۔ یہ سب اس چوہے کی وجہ سے ہوا ہے، وہ بولی۔ ایک تو یہ حمدان کے رونے کی آواز سے میرا سر پھٹا جارہا ہے، امی جلے کٹے انداز میں بولیں۔ شگفتہ پلنگ ادھر سے آکر کھینچو، رفعت تم میرے ساتھ آکر مدد کرو، انہوں نے زور لگا کر پلنگ کو دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا۔
اگلا منظر چونکا دینے والا تھا۔ وہ حیرت کی بات بنی پلنگ کے نیچے پڑی چیز کو بے یقینی کے عالم میں تکنے لگی۔ پسینے کے چند قطرے امی کے ماتھے پر چمک رہے تھے۔ آخرکار ان کے ہائی بلڈپریشر نے کام دکھایا۔ یہ ہے چوہا ؟ اس کی بات کر رہی تھی تو دونوں؟امی نے دونوں کی طرف تنقیدی نگاہوں سے دیکھا۔
اتنے میں حمدان کمرے میں داخل ہوا، پلنگ دیوار کے ساتھ کھڑا ہوا تھا اور چوہا لکڑی کتر کتر کر قالین پر بورا گرا رہا تھا۔ واؤ ! میرا چابی والا چوہا، میرا فیورٹ چوہا مل گیا! امی کی حلال کردینے والی نگاہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ چوہا اٹھا کر خوشی سے ہوا میں لہرا کر بولا۔
تھینک یو سو مچ! اب میں حارث کے ساتھ جاکر کھیلوں گا۔ حمدان جلدی سے بولا اور پھر میرا چوہا مل گیا، میرا چوہا مل گیا جس نعرہ بلند کرتا ہوا باہر گلی میں کھیلنے چلا گیا۔
چلو بھر پانی میں ڈوب مرو،بے شرموں! سارا وقت برباد کردیا۔ امی غصے سے سرجھٹک کر باہر چلی گئیں۔ دوسری طرف رفعت اور شگفتہ آپا پشیمان سے چہرے لئے سر جھکائے کھڑی تھیں۔