!زیادتیوں سے نکلی جنسی زیادتیاں

یہ بات واضح ہوتی چلی جا رہی ہے کہ کوئی حادثہ کوئی سانحہ ایک دم سے وقوع پذیر نہیں ہوتا،اسکے پیچھے عرصہ دراز سے چلنے والاطویل یا مختصر تسلسل ہوتا ہے۔ معاشرے میں بدلاؤ کیلئے بنیادی جز ہے کہ چھوٹے چھوٹے واقعات و معا ملات بروقت شناخت کئے جائیں اور مستقل بنیادوں پرانکے حل نکالیں جائیں۔ یہ بلکل ایسے ہی ہے کہ کوئی اپنے گھر سے نکاسی آب کیلئے ایک نالی بنا کر گلی میں نکال دیتا ہے، اس عمل پر رد عمل کی بجائے دوسرے قر ب و جوار کے لوگ بھی اسکی پیروی کرنا شروع کردیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے صاف ستھری گلی کسی گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہوجاتی ہے یوں کہہ لیں کہ ایک چھوٹی سی نالی ایک بڑے نالے کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر اہل محلہ اپنی گلی میں بننے والی پہلی نالی کو بھول کر حکومت کو دہائیاں دینے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، بد قسمتی سے سد باب پھر بھی نہیں کرتے۔ اب اصولی طور پر یہاں ہونا یہ چاہئے تھا کہ پہلی نالی بنانے والے کو اسکی اس غیر اخلاقی و معاشرتی غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے بند کرنے کیلئے کہنا چاہئے تھا لیکن ایسا تو نا ہوسکا بلکہ دیگر لوگوں نے بھی اپنی آسانی کیلئے ایسا کرنا شروع کردیا، جوکہ بدترین زیادتی تسلیم کی جانی چاہئے۔ بچہ اگر نہیں پڑھ رہا تو یہ کہہ کر اسے پڑھائی سے ہٹا دینا کے اسکا دل ہی نہیں ہے تو وقت اور پیسہ کیوں برباد کیا جائے اسے پڑھائی سے ہٹا دینا ناصرف اسکے ساتھ زیادتی ہے بلکہ معاشرے کو ایک مہذب انسان سے محروم کردیا گیا، یہ ذمہ داری والدین اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے نا کہ حکومت پر۔ راستے میں چلتے ہوئے کسی بھیکاری کے سوال پر اسے دھتکار دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی بلکہ معاشرے میں موجود بدنما لوگ اپنی بد نمائی کو چھپانے کی جستجو میں اس گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

ہم سب کے پاس زیادتیوں کی طویل فہرست ہے جو ہمارے ساتھ ہوئیں اور وہ بھی جو ہم نے دوسروں کیساتھ کیں۔ مختلف طریقوں سے ان زیادتیوں کی شناخت بھی کی جاتی ہے بد قسمتی سے زیادتی کرنے والے کو اپنی کی جانے والی زیادتی کا احساس ہی نہیں ہوتا اگر ہوتا بھی ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ گاؤں دیہاتوں میں عورتوں کو عزت کے نام پر یا کوئی تہمت لگا کر موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے، ایسے بے شمار واقعات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں لیکن کہنے والے یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ یہ انکی برادری یا خاندان کا مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر پہنچ چکے ہیں یعنی دنیا اب چاند کے بعد کسی اور سیارے پر قدم رکھنے کیلئے پر تول چکی ہے اورہمارے ملک میں کوئی نام کیساتھ مجرم کا پتہ بھی بتادے تب بھی کچھ ایسا نہیں ہوتا کہ آئندہ کیلئے وہ جرم کرنے سے باز رہے۔ اور تو اور معلومات دینے والے کیلئے یہ جان کی بازی بن جاتی ہے،کبھی کبھی تو جان لے جاتی ہے اور پھر اسکے والی وارث اسے ڈھونڈتے ہی رہے جاتے ہیں اور آخر میں شہر میں یا کہیں شہر کے باہر سے جھاڑیوں میں پڑی ہوئی لاش مل جاتی ہے جو اس بات کا سبق ہوتی ہے کہ اندھے، بہرے اور گونگے بن کر رہوورنہ “نا ” رہو۔

کسان کو اسکی محنت کا حق نا دیا جائے تو کیا یہ کتنی بڑی زیادتی ہے، تعلیم کے مختلف معیار ہوں جو قابلیت کا قتل عام کرنے کیلئے استعمال ہوں کیا یہ بدترین زیادتی نہیں ہے، معاشروں کو طبقوں میں تقسیم کر کے عوام کا استحصال کیا جانا زیادتی نہیں ہے۔روز مرہ کی زندگیوں میں زیادتیوں کا ایک تسلسل ہے جو وارد ہوتا ہی رہتا ہے اور ہم اسے زندگی کا حصہ قرار دے چکے ہیں۔

سن ۸۱۰۲ جنوری میں قصور شہر میں زینب انصاری نامی سات سالہ کمسن بچی کیساتھ اغواء اور جنسی زیادتی کے بعد قتل کا اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ سماجی ابلاغ کی توسط سے اس واقع نے آگ کی طرح پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،پورا ملک سوگوار ہوگیا اورتقریباً پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور زینب کو انصاف دلانے کیلئے گویا پورا پاکستان کھڑا ہوگیا، بھرپور تحریک چلائی گئی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ درندہ صفت مجرم عمران علی کو قانونی کاراجوئی کے بعد تختہ دار پر لٹکا دیا گیاجبکہ عوام کی دلی خواہش تھی اور زینب کے والد نے بھی برملا اس بات پر زور دیا کہ درندگی کے مجرم کو سر عام پھانسی دی جائے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔عمران نامی مجرم کو پھانسی کی سزا دے دی گئی لیکن جرم ختم نا ہواکیونکہ سزا قرار واقع جرم کے عین مطابق نہیں تھی۔ اس جرم کے خوفناک محرکات بھی منظر عام پر لائے گئے لیکن انہیں بھی ہوا میں اڑا دیا گیا۔ دوران تفتیش دو اہم باتیں منظر عام پر آئیں ایک تو یہ کہ مجرم اس سے پیشتر بھی اسی جرائم میں ملوث رہا اور یہ ایک بین الاقوامی جال کا حصہ تھا، لیکن اسکے بعد ایسی خاموشی ہوئی کہ کچھ سنائی نہیں دیا گیا لیکن بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے واقعات تواتر سے رونما ہونا شروع ہوگئے۔درسگاہیں اس بھیانک جرم کی اماجگاہیں بن کر رہ گئی ہیں، افسوسناک بات یہ ہے کہ مدرسے بھی اس کی زد میں ہیں اور دین کا علم دینے والے اس شیطانی عمل کے آلہ کار بن کر رہ گئے ہیں۔زیادتی کو برداشت کرلیا گیاجسکی وجہ سے اب یہ عام سی بات ہوچکی ہے۔ نالی کو بروقت بند نہیں کیا گیا تو گندے پانی کا بڑا جوہڑ بن گیا۔

گزشتہ دنوں جنسی زیادتی کا ایک اور ہولناک واقع پیش آیا جب ایک خاتون کو انکے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اس وقعہ کو تقریباً تین ہفتے سے زیادہ ہوچکے ہیں لیکن تاحال عابد نامی مذکورہ واقع کا مرکزی مجرم قانون کی گرفت میں نہیں آسکا۔اس واقع کے بعد ایک بار پھر سماجی ابلاغ نے آواز اٹھائی کے مجرمان کو سر عام پھانسی دی جائے جس پر حکومت نے اس مطالبے کی حمایت میں بیان تو دیا لیکن عوام کو ان مصلحتی وجوہات سے بھی آگاہ کیا جس کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوپارہا، ابھی یہ معمہ حل ہونے کے عمل سے گزر ہی رہا ہے اور قوم اس واقع کو بھلا نہیں پائی تھی کہ ایک اور واقع رونما ہوگیا ہے جس میں سواری کے انتظار میں کھڑی خاتون کو اغواء کرنے کے بعد اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کی تصدیق یا تھانے میں رپورٹ پانچ دن کے بعد درج کرائی گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ عابد نامی مجرم جو ابھی تک آزاد ہے وہ قانون اور قانون کے رکھوالوں کیساتھ تو زیادتی نہیں کرتا پھر رہا۔ بہت ممکن ہے کہ سفید پوش لوگوں کے راستے میں حمائل ناگزیر وجوہات کی بناء پر اتنی دیر لگی ہو۔ گزشتہ دنوں ہمارے پڑوسی ملک میں بھی ایک ایسا ہی واقع رونما ہوا ہے جس میں بھری بس میں ایک عورت کو شیطانی ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور وہ عورت معاشرے کے عدم توجہی کی وجہ سے موت میں چلی گئی۔ یوں تو جرم جرم ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو لیکن اگر جرم ایک اسلامی مملکت میں ہو اور ایسا جرم کہ جس کی سزا بھی شرعیت نے بہت واضح بتائی ہو تو پھر بغیر کسی توجیح کے عمل درآمد ہونا چاہئے۔

یہا ں یہ بات مسلم حقیقت ہوتی دیکھائی دے رہی ہے کہ انصاف کی عدم دستیابی جرم کو بڑھاوا دینے کیلئے کافی ہے۔ ہمارے ملک میں جرم کرنے والا یہ بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات اور رتبے کا استعمال کر کے آزاد ہوجائے گا۔

یہاں یہ کہنا تو بے معنی معلوم ہوتا ہے یا کسی ایسے بچے کی بات جیسا لگتا ہے کہ اللہ کا عذاب آئے گا، لیکن ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جب عذاب آئے گا تو پھر کسی ایک یا دو پر نہیں آئے گا اس کی زد میں ہم سب آئیں گے۔ ہم حکومت کو اس بات پر آمادہ نہیں کر پارہے کہ وہ اسلامی ریاست کی بنیادی اکائی شرعی قوانین کو فوری طور پر نافذ کرے اور قرار واقع مجرموں کو جہاں جرم کیا گیا ہے وہیں سنگسار کرنے کی سزا سنائے، جہاں چوری ہو وہیں ہاتھوں کو کاٹا جائے۔ہمیں اس بات کا احساس کیوں نہیں ہورہا کہ یہ عورتیں ہمارے گھروں کی بھی ہوسکتی ہیں یہ بچے ہمارے بھی ہوسکتے ہیں اگر آج ان وحشی درندوں کو انکی کی جانے والی سزاؤں کے عین مطابق سزائیں نہیں دی گئیں تو پھر اس سلسلے کو روکا نہیں جاسکے گا۔کہیں ایسا نا ہو کہ عوام خود ہی سڑکوں پر فیصلے کرنے لگیں۔ انصاف فراہم نا کیا گیا تو ہم اپنے معاشرے کو جنگل میں دھکیل دینگے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔