عارف صاحب گھر میں داخل ہوئے تو چاروں بیٹیاں بھی پہنچ گئیں جوکہ مکان کی اوپری منزل پر تھیں۔ سلام کے بعد والد صاحب کے گرد بازو دبانے اور دن بھر کی روداد سنانے کی غرض سے بیٹھ گئیں۔ سدرہ ہمیشہ کی طرح بڑھ چڑھ کر بول رہی تھی اور عارف صاحب بغیر ٹوکے مسکرا مسکرا کر اس کی باتیں سن رہے تھے۔ تبھی انہوں نے محسوس کیا کہ باقی بیٹیاں آج چپ چپ ہیں۔
انہوں نے سوالیہ نظروں سے عائشہ، لائبہ اور طیبہ کی طرف دیکھا اور پوچھا آپ لوگ آج خاموش کیوں ہو؟
جواب نہ پاکر انہوں نے بڑی بیٹی کو مخاطب کیا اور دوبارہ سوال کیا عائشہ بیٹا کیا سوچ رہی ہو؟
مارا ہے وہ کیوں؟ عارف صاحب نے عائشہ اور طیبہ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوے پوچھا، طیبہ کے چہرے پر غم و غصے کے اثرات تھے۔
پاپا جب آپ آئے تو آپی عائشہ نے کہا چھوڑو اب موبائل اور سب نیچے چلو مگر آپی طیبہ ڈرامہ دیکھ رہی تھی، وہ کہتی میں کچھ دیر میں آؤں گی۔ آپی عائشہ نے کہا میں نے آپ کو دن میں موبائل دیا تھا۔ اب بس اور نہیں چھوڑ دو مگر طیبہ مانی ہی نہیں تو آپی عائشہ نے اسے تھپڑ مار دیا، سدرہ نے پورے معاملے کی روداد عارف صاحب تک پہنچا دی۔
کہاں نشان پڑے ہیں؟، عائشہ نے پوچھا تو طیبہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور ناک پر لگے زخم پر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوے دکھانے لگی۔ عائشہ جو پہلے ہی شر مندہ تھی مزید شرمندہ ہوگئی۔
پاپا بولے عائشہ بیٹا غلطی کرنے سے پہلے سوچتے ہیں۔ آئندہ احتیاط کریں۔ ایسے مت مارا کریں اور طیبہ آپ اپنی آپی کو معاف کر دو۔ میں کیوں معاف کروں پاپا ، آپی نے کونسا معافی مانگی ؟، طیبہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
طیبہ بری بات ہے بیٹا ، وہ آپ سے بڑی ہیں، کیا آپ کو اچھا لگے کہ وہ آپ سے معافی مانگیں؟ آپ خود ہی معاف کر دو۔پاپا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
سدرہ بولی پاپاجی آپی عائشہ تو مجھ سے معافی مانگتی رہتی ہیں۔ آپ سے کیوں معافی مانگتی ہیں؟ ، پاپا نے حیرت سے پوچھا۔ جب کبھی وہ مجھے غصے سے ڈانٹتی ہیں یا مارتی ہیں،تو پھر بعد میں مجھ سے معافی مانگ لیتی ہیں۔سدرہ جھٹ سے بولیں۔ سدرہ یہ اچھی بات ہے کیا؟ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
پاپا میں کونسا خود کہتی ہوں ؟،سدرہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔ تو پھر بھی آپ خود ہی معاف کر دیا کرو اور کہا کرو آپی آپ پریشان نہ ہوں، میں نے آپ کو معاف کر دیا ہے، عارف صاحب نے محبت سے سمجھایا۔
پاپا جی لیکن اگر میری ہی غلطی ہو اور وہ آگے سے کہہ دیں کہ میں نے تو آپ کی ہی غلطی پہ مارا ہے۔ اچھا تو میں سمجھ گئی۔ میں خود ہی اپنی غلطی مان لوں گی اور آپی سے خود اپنی غلطی کی سوری کروں گی، سدرہ نے خود ہی سوال اور پھر جواب دیتے ہوے کہا۔
چلیں عائشہ طیبہ سے ہاتھ ملائیں، طیبہ آپ بھی آپی سے ہاتھ ملاو ،مسکرا کر سلام لو۔ آپ کو بتایا تھا نہ میں نے کہ جو جھگڑے کے بعد سلام میں پہل کرتا ہے اسے ذیادہ اجر وثواب ملتاہے۔ اب دیکھتے ہیں،آج کون زیادہ اجر لیتا ہے۔
میں لوں گی، دونوں ایک ساتھ بولیں تھیں اور ایک دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوے سلام کے لیے ہاتھ بڑھا دیے۔
ماشاءاللہ یہ تو آپ دونوں نے برابر کا ثواب کمالیا، عارف صاحب نے بیٹیوں کی طرگ شفقت و محبت سے دیکھتے ہوے کہا۔
ان دونوں کی آپس کی ناراضگی سے ماحول میں جو خاموشی اور تناؤ تھا،وہ ختم ہو گیا اور وہ سب مل کر پاپا کے کان کھانے میں مصروف تھیں۔
آخر میں عارف صاحب نے نشست برخاست کرنے سے پہلے پھر بیٹیوں کی اچھے عمل پر حوصلہ افزائی کی اور برائی سے رکنے کی تلقین کی۔ انھوں نے کہا، بیٹا ہم سب سے غلطیاں اور گناہ ہو جاتے ہیں مگر سب سے بہترین غلطی کرنے والا وہ ہے جو اپنی غلطی مان کر اصلاح کر لے۔ تو مجھے امید ہے عائشہ آئندہ آپ بہنوں پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گی اور انہیں پیار سے سمجھائیں گی۔
جی پاپا ان شاءاللہ میں اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کروں گی، عائشہ نے آئندہ خیال رکھنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا۔
شاباش ! اور بیٹا ہم سب کو اللہ سے معافی چاہیے۔ تو اللہ چاہتاہے ہم اس کے بندوں کی خطاؤں کو معاف کردیا کریں۔ اس لیے کوئی جان بوجھ کر یا انجانے میں ہمارے ساتھ نا انصافی کر دے، خواہ گھر میں ہوں یا اسکول تو آپ سب نے اللہ کی رضا کے لیے اسے معاف کر دینا ہے۔
پاپا جی پاپا جی یہ بات تو مجھے پہلے ہی پتا ہےاور میں اکثر معاف کر دیتی ہوں۔ دیکھیں تبھی تو میرے جھگڑے کا کوئی معاملہ آپ تک نہیں آیا۔ اور میں نے نمازیں بھی ساری پڑھی ہیں، چاہے تو میری ڈائری دیکھ لیں، اب لائبہ نے بھی فٹ سے اپنی اچھائی پاپا جی تک پہنچائی، تاکہ ہمیشہ کی طرح زیادہ انعام حاصل کرسکے۔
عارف صاحب اس کے اس طرح جلدی سے کہنے پر مسکرا دیے تو عائشہ ،طیبہ سدرہ حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔ جو آج بھی انعام وصول کرنے والی تھی۔