پچھلے کچھ سالوں سے ملک میں بالخصوص کراچی میں عوامی دسترخواں کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ جو بھوکا ہے کم از کم وہ رات بھوک سے نہ کاٹے۔ آئندہ کے منصوبے تو ہوتے ہی رہیں گے مگراس وقت کھانا چاہیے ہوتا ہے تو اس کا بندو بست یہ عوامی مفت دسترخواں کرتے ہیں۔ اعتراضات بھی ہوئے مگر اس پر سب متفق پائے گئے کہ کسی بھی بھوکے کو کھانا کھلانا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اورعین عبادت ہے۔
گزشتہ دنوں حقوق انسانیت سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن نے بھی ایک ایسے دسترخواں کا آغاز کیا ہے۔ غیرمعروف تنظیم مگرمقصد اور نیت میں معروفیت جھلک کی نمایاں ہے۔ نارتھ کراچی میں پہلا عوامی دسترخواں کا آغاز کیا گیا، تو عوام کا رش دیدنی تھا۔ ابتدا میں حقوق انسانیت آرگنائزشن نے تین سو افراد کے لیے ایک وقت کا کھانا کھلانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کھانے کے لیے آنے والوں کو نہ تو کوئی پارٹی کا رضا کار ہوکر دکھانا پڑتا ہے، نہ کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔ جو بھوکا ہے اور جب تک کھانا موجود ہے وہ بیٹھے اور کھائے۔ فلاحی تنظیم کی جانب سے وہاں کھانے کا اہتمام بھی خود کی تیاری کے بجائے آرڈر پر تیار کروا کر کیا جاتا ہے جو یقینا نسبتا مہنگا پڑتا ہے۔
کھانا بنوا کر کھلانے والی بات تھوڑی سمجھنامشکل تھی کہ آخر ایسی بھی کیا مشکل آن پڑی خرید کر یہ اہتمام کیا جارہا ہے تو اس سوال پر انسانیت آرگنائزیشن کے سربراہ قاضی محمد ابراہیم نے تفصیل بتائی۔ کہنے لگے ہم نے رمضان میں افطار کا اہتمام کیا پھر آٹا مہنگا ہوا تو سستی روٹی کے لیے تندور والوں سے بات چیت کر کے 12 روپے کی روٹی کو 5 روپے کی قیمت پر فروخت کے لیے سہولت دی۔ اسکولز کے بچوں کے لیے کورسز کا بھی اہتمام کرتے رہے، پودے لگانے کی مہمات بھی چلائیں، جو ممکن ہوتا ہے کرتے ہیں مگر دل میں ایک خلش سی تھی کہ کبھی دسترخواں لگائیں گے۔ یہ کام انتہائی محنت طلب اور مہنگا تھا پھر ایسا کام جو روزانہ کی بنیاد پر کرنا پڑے اور باقاعدگی کے ساتھ کرنا پڑے تو یقینا وہ کسی فرد واحد یا ایک غیرمعروف اور متوسط سطح کی تنظیم کے لیے نا ممکن تھا مگر ہم نے کر دکھایا۔
یہ بات یقینا اہمیت کی حامل تھی کہ روز وقت دینا، اہتمام کرنا اور وہ بھی کسی بھی قسم کی کوئی سیاسی ومذہبی یا حکومتی سرپرستی کے مشکل تھا مگر یہ مشکل انہوں نے ختم کی اور کراچی کی بے لوث اور خدمت گزار تنظیموں میں اپنا آپ منوا لیا۔ قاضی محمد ابراہیم کے آئندہ کے بھی کئی منصوبے ہیں مگر ان کے پاس فنڈز کی کمی ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ پیسے دینے والوں سے زیادہ وہ لوگ ہیں جن کو لگتا ہے کہ ہمارے پاس بہت پیسے آتے ہیں۔ ان کی اس بات پر کچھ لگا کہ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں عام تصور یہی ہوتا ہے کہ ان پاس کافی فنڈز ہوتے ہیں مگر شاید اس وقت وہ درست تھے۔ لالو کھیت 10نمبر پر دسترخواں لگانے کا ارادہ ہے، انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ اس کے علاوہ پھر سے سستی روٹی کا بھی منصوبہ شروع کرنا ہے۔ ایسے کئی دیگر منصوبوں پر وہ بتا رہے تھے۔
حقوق انسانیت آرگنائزیشن کے دسترخواں سے بریانی کی خوشبو نے ساری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی تھی۔ ساتھ میں لال شربت کا جگ اور گلاس رکھے دیکھ کر کسی متوسط سطح دعوت سے کم کا ماحول نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ شرکا کی تعداد بھی نمایاں تھی۔ کھانے والوں کی شکلیں ایک جیسی تھیں، یعنی سب بھوکے تھے۔ ممکن ہے ان میں کئی غیر مسلم بھی ہو، یہ بھی ممکن تھا کہ کوئی جیب میں پیسے رکھ کر بیٹھا ہو اور ایسے بھی تھے کہ جن کے چہروں پر مستقبل کی فکر عیاں تھی مگر اس وقت اس دسترخواں کی چاردر پر سب ایک ہی صف میں بیٹھے تھے سب انسان تھے ، بھوکے تھے اور سب کو کھانا چاہیے تھا جس کا اہتمام ہوچکا تھا۔
ایسے کئی دیگر لوگ بھی ہوں گے جو اپنے طور پر بھاری بھرکم فنڈز کی وصولی کی فکر سے بے پروا، کون کیا کیوں کیسے کے سوالوں کو نظر انداز کیے ہوئے جو خود سے ہوسکتا ہے وہ کررہے ہوں گے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ہمارا کراچی ایسا ہی ہے، یہاں خدمات گزار بھی ویسے ہی پائے جاتے ہیں جیسے خدمت کروانے والے، یہاں پیسے نہ ہوں تو بھی جذبات کی کمی نہیں دکھتی، جو ہے جیسا ہے جتنا ہے پر عمل کرتے ہوئے ہر شخص لٹاتا ہے جو اس سے ہوپاتا ہے۔
مخیرین سے التماس ہے اس دسترخواں کو جاری رکھنے کے لیے حقوق انسانیت آرگنائزیشن کا ساتھ دیں اور ان کی جیسے ممکن ہو مدد کریں تاکہ یہ جذبات یوں ہی رواں دواں رہیں۔
سربراہ قاضی محمد ابراہیم سے 03452153664 رابطہ کیا جاسکتا ہے۔