دنیا میں تیز رفتار اقتصادی سماجی ترقی کے ثمرات سے اگرچہ عوام کی ایک بڑی تعداد مستفید ہوئی ہے مگر دوسری جانب صنعتکاری اور شہری آباد کاری سے فطری ماحول کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا آج موسمیاتی تبدیلی کے شدید مسائل سے دوچار ہے جس میں درجہ حرارت میں اضافہ ،گلیشئرز کا تیزی سے پگھلنا ، غیر معمولی بارشوں کے باعث سیلاب اور دیگر کئی ماحولیاتی مسائل نے جنم لیا ہے۔دنیا نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے2015میں پیرس موسمیاتی معاہدے پر تو اتفاق کیا مگر امریکہ کی اس عالمی معاہدے سے دستبرداری کے بعد عمل داری اور اہداف کے حصول سے متعلق عالمی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔دنیا کی توقعات امریکہ اور چین جیسے بڑے ممالک سے اس باعث بھی وابستہ ہوتی ہیں کہ، ایک تو سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے عالمی گورننس اور فیصلہ سازی میں ان ممالک کا کلیدی کردار ہوتاہے۔ دوسرا یہ بڑے ممالک اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی تنظیموں اور کمزور ممالک کی امداد بھی کرتے ہیں تاکہ اقتصادی سماجی ترقی سمیت ماحولیاتی تحفظ کے منصوبہ جات پر موئثر عمل درآمد کیا جا سکے۔
اہم عالمی طاقتوں کی بات کی جائے تو ابھی حال ہی میں چین کے صدر شی جن پھنگ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں اعلان کیا کہ چین2060تک کاربن سے پاک ترقی کی جستجو کرے گا۔ایسا پیرس موسمیاتی معاہدے کے بعد پہلی مرتبہ ہے کہ جب چین نے وقت کے باقاعدہ تعین سے ایک پرعزم ہدف کا تعین کیا ہے۔گوکہ ماضی میں چین کی جانب سے اقتصادی سماجی ترقی سے متعلق جو بھی اہداف طے کیے گئے ہیں اُن پر مکمل عمل درآمد یقینی بنایا گیا ہے لہذا دنیا پُراعتماد ہے کہکاربن سے پاک ترقی بھی چین کے لیے کوئی ناممکن چیز نہیں ہے۔اس کی حالیہ مثالچین کی جانب سے سال 2014میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ترتیب دیا جانے والا قومی پلان02014-202ہے جسے توقعات سے دو برس قبل 2018میں پایہ تکمیل تک پہنچا دیا گیا ہے۔اس منصوبے کے تحت چین نے صنعتی ڈھانچے کی ترتیب ، توانائی کی بچت و موئثر استعمال اور کاربن کے کم اخراج پر مبنی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
جہاں تک اہداف کے تعین کی بات کی جائے تو مغرب کے برعکس چین میں یہ روایت ہے کہحقیقی اہداف طے کیے جاتے ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ حالات کی روشنی میں ضروری تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔تحفظ ماحول کی خاطر چین اس وقت بھی سرسبز ترقی کے نظریے پر عمل پیرا ہے اور اعلیٰ معیار کی حامل “گرین توانائی” اور “گرین صنعتوں” کو فروغ دے رہا ہے۔دنیا چین سے جاننے کی خواہش مند بھی ہے کہ چین کیسے کاربن سے پاک ترقی کو یقینی بنائے گا۔ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے فعال “کلائمیٹ ایکشن ٹریکر” کے مطابق اگر چین یہ ہدف پورا کر لیتا ہے تو عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ کے درجے میں 0.2سے0.3سینٹی گریڈ تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین کیسے یہ ہدف حاصل کرے گا؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے کچھ حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔چین نے کوئلے پر مبنی کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے حالیہ عرصے میں ٹھوس اقدامات کیے ہیں اور صنعتی ڈھانچے میں ضروری اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔توانائی کی پیداوار کے لیے ایسے ذرائع استعمال کیے جا رہےہیں جس میں کم سے کم کوئلہ استعمال ہو۔ بجلی گھروں میں ماحولیاتی معیارات کو بلند کیا گیا ہے۔ملک میں کوئلے کا شعبہ وسیع اصلاحات سے گزر رہا ہے جسے کوئلے کی کانوں سے بجلی گھروں تک توسیع دی گئی ہے۔چین کا عزم ہے کہ پیرس موسمیاتی معاہدے کی روشنی میں سال 2030تک ملک میں قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو 800گیگا واٹس سے1000گیگا واٹس تک بڑھایا جائے جو امریکہ میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت کے مساوی ہے۔چین نے گھریلو سطح پر کوئلے پر انحصار کم کرنے کے لیے بھی مختلف پالیسیاں متعارف کروائی ہیں۔دو ہزار سترہ میں چین کی وزارت ماحولیات نے ملک کے چار شمالی اور وسطی صوبوں میں تیس لاکھ سے زائد خاندانوں کو خصوصی سبسڈی دی تاکہ کوئلے سے چلنے والے چولہوں کی جگہ الیکٹرک یا گیس ہیٹرز نصب کیے جا سکیں۔
چین کی جانب سے کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔دو ہزارا نیس کے آخر تک چین میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد تقریباً چالیس لاکھ ہو چکی ہے جو مجموعی طور پر دنیا میں موجود برقی گاڑیوں کے نصف سے زائد ہیں۔اسی طرح پانچ سو سے زائد ایسی گاڑیوں کے ماڈلز کی تیاری بند کر دی گئی ہے جو ایندھن کے حوالے سے طے شدہ سخت معیارات پر پورا نہیں اترتی تھیں۔ملک بھر میں توانائی کی بقاء اور ماحول کے تحفظ کے حوالے سے شہریوں میں شعور اجاگر کیا گیا ہے اور تحفظ ماحول کی خاطر عوامی مقامات بشمول بسوں ،ٹرینوں اور شاپنگ مالز وغیرہ میں مختلف آگاہی تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔شجرکاری کے مزید فروغ سے بھی کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔چین نے سال 2000کے بعد سے جنگلات کے رقبے کو نمایاں توسیع دی ہے اور یہ امر قابل زکر ہے کہ اس عرصے کے دوران دنیا بھر میں جنگلات کےاضافی رقبے میں چین کا شیئر پچیس فیصد رہا ہے۔ورلڈ بنک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ چین نے گزشتہ بیس برسوں کے دوران عالمی سطح پر توانائی کے شعبے میں اٹھاون فیصد بچت کی ہے۔
چین عالمی سطح پر ماحولیات کے تحفظ سے متعلق تمام اہم معاہدوں پر عمل پیرا ہے اور شفاف توانائی کے حوالے سے چین کی کاوشوں کو اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر بھرپور سراہا گیا ہے۔چین کی کوشش ہے کہ گرین اور کم کاربن ترقی پر عمل پیرا رہتے ہوئے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا جائے اور کرہ ارض کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کیا جائے۔اس ضمن میں عالمی برادری فضائی ،آبی اور زمینی آلودگی کی روک تھام کے لیےچین کے کامیاب تجربات سے سیکھنا چاہتی ہے جس سے فطری ماحول اور اقتصادی ترقی میں ہم آہنگی سے ایک خوبصورت اور محفوظ دنیا کی تعمیر میں مدد مل سکتی ہے۔