تیس سال پہلے کراچی کے مہاجر اکثریت کو ان کا حق دینے حق پرست بھی آئے تھے-روشنیوں کے شہر کراچی کو مذید روشنیاں دینے لیکن کیا پتہ تھا کہ اس شہر کو روشنیوں کے بجائے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے گا-
حق پرستوں کا منشور تو پورا یاد نہیں مگر دو باتیں ضرور ذہن میں رہ گئ -اول کوٹہ سسٹم ختم کریں گے تاکہ کراچی کے نوجوانوں کو سرکاری نوکری مل سکے،دوسرا بہاریوں کو بنگلہ دیش سے واپس لایا جائے گا خیر سے دونوں ہی کام نہیں کیےبلکہ ایسا لگتا ھے کہ اپنے منشور سے ہٹ کر ہی انہوں نے سارے کام کیےاور ان کا مقصد صرف اور صرف اپنا بنک بلینس کو ترقی دینا تھا-
جو حال آج کل کراچی کا ہے وہ تو ہم سب کے سامنے ہے،اگر اب بھی لوگوں کو عقل نہیں آتی تو یہ سچ ہے کہ ” خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا”ہم سب کے سامنےالٹا ہوا کراچی ہے جس کی کوئ کل ٹھیک نہیں،کے الیکٹرک نے عوام کا جینا دوبھر کیا واہے دوسرے حالیہ باریشوں نے جو تباہی مچائ -جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک،کوروناجیسے مسائل کو حل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور کر رہی ہے-اب یہ کراچی کے عوام پر ہے کہ آیا وہ ان ہی لوگوں کو اپنے سروں پر بیٹھائیں گے جنہوں نے کراچی کا حشر نشر کیا یہ بات کراچی کے عوام کو سمجھ لینا چاہیےکہ” ہمارے نبی کا فرمان ہے کہ جس نے عصبیت پر جان دی وہ ہم میں سے نہیں”خدارا اپنی سوچ بدلیں-
اب چیزیں نظرانداز کرنے کا وقت نہیں ہےاگر ابھی نیہں تو پھر کبھی نہیں-اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی والے یہ دعا ضرور کریں کہ *وہ*بھی جماعت پر نظر عنایت کر ہی لیں اور *وہ*اب کراچی کو اس کا حق دے دیں جو تیس سال پہلے چھین لیا گیا تھا-