ہمارے معاشرے میں موجود خطرناک مسائل کا اگر احاطہ کیا جائے تو اس میں سر فہرست ذہنی انتشار، بے سکونی، بے یقینی، خلجان، ٹینشن، ڈپریشن اور اسٹریس کی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ یوں تو اس کی وجہ انفرادی مسائل ہوسکتے ہیں لیکن اگر ہم ان کیفیات میں مبتلا لوگوں کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں اس بات کا ادراک ہوگا کہ یہ مسائل انفرادی سے زیادہ اجتماعی تفکرات، رویوں اور عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
غیبت، حسد، کینہ، دکھاوا، نمودونمائش، ریاکاری، اسراف، دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ اور اختلاف رائے وہ خطرناک لاوا ہیں جو سال ہا سال لوگوں کے دلوں میں بھڑکتے رہتے ہیں اور کسی ناں کسی خاص موقع پر یہ آتش فشاں سے لاوا ابل دیتا ہے اور یوں اچھے خاصے رشتوں، آپس کے معاملات، دوستی، انسیت، محبت یکدم دشمنی و لاتعلقی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس آتش فشاں کے لاوے کو پنپنے ہی نہ دینا اس کا آسان حل ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا محرکات ہیں کہ جن کی وجہ سے اپنے غیر ہوجاتے ہیں اور لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایک فرد اکائی کے ساتھ ساتھ بہت سے رشتوں میں بندھا ہوتا ہے مرد کی صورت میں کہیں بیٹا کہیں باپ کہیں بھائ کہیں شوہر اور دیگر رشتے اسی طرح عورت کی حیثیت میں کہیں بیٹی کہیں ماں کہیں بیوی اور کہیں بہن اور انہیں رشتوں سے مل کر بنتا ہے ایک خاندان ایک گھر ایک معاشرہ۔۔۔۔ لیکن آج بدقسمتی سے ہمارے گھروں میں محبت، اپنائیت، انسیت کی جگہ حسد جلن اختلاف رائے تکبر اور اپنی بات منوانے جیسے ناسوروں نے لے لی ہے۔ آج ہم ان خطرناک مسائل میں اس طرح گھرے ہوئے ہیں ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ دیمک کس طرح ہمارے خاندانی نظام کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہب اسلام میں ان تمام مسائل کو بہت احسن طریقے سے بیان فرمایا کیا ہے ہمیں قرآن و حدیث اور نبی محترم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ان تمام مسائل کا پتہ بھی چلتا ہے اور ان کی ممانعت کی بدولت ہم اس کا مقابلہ بھی کرسکتے ہیں۔
ان مسائل کو بنانے پروان چڑھانے اور ضرب دینے میں جہاں سب ہی کا اپنا اپنا کردار ہے وہیں اس میں سب سے زیادہ اور اہم ہمارے بزرگ ہیں۔
کیوں کہ کسی بھی خاندان میں اس کے سربراہ کی تقلید کی جاتی ہےاور اگر وہی سربراہ ان مسائل کا شکار ہو تو پھر اس گھر کا اس خاندان کا ہر ہر فرد اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔
بظاہر ہم اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوتے ہیں لیکن بسا اوقات دوسروں سے آگے بڑھنے کے لئے ایسے ذرائع بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے جن سے نہ صرف دوسرے بلکہ ہم خود بھی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔۔۔
اس موڑ پر اگر ہم۔خود اور ہمارے بزرگ یہ سوچ لیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے نعمت کی تقسیم میں دوسری چیزوں کی طرح کوئی کمی بیشی نہیں کی وہ عادل ہے اور عدل کو پسند کرتا ہے تو ہم اس مسئلے سے بچ سکتے ہیں۔
شکر و قناعت وہ بہترین کنجی ہے جس کے ذریعے ہم اللہ کے خزانوں کو اپنے اوپر کھول سکتے ہیں۔
بالکل اسی طرح ہم اس کو یوں کہیں کہ اگر ہم میں کوئی زیادہ آگے ہے تو ایک صحت مند مقابلے کا رحجان بڑھانے کی ضرورت ہے اگر ہم اچھی چیز لے حصول کے لئے نیک اور جائز طریقوں پر عمل پیتا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ کی رحمت اس میں شامل حال نہ ہو۔
اس صورت میں ہم دوہرا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ایک تو غلط طور طریقوں سے بچ سکتے ہیں اور دوسرا صحتمند اور کنسٹرکڑو کاموں کی وجہ سے ہر ہر بندہ کامیابی و کامرانی کی جستجو اور اس کی تمنا کے حصول کے لئے تگ و دو کرے گا۔
اس کی اعلی مثال سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں جو نیکیوں کے حصول کے لئے ہمیشہ کاوش و سعی کرتے تھے۔
اگر ہم غرور و تکبر کو دیکھیں تو یہ وہ عظیم فریب ہے جس میں مبتلا ہوکر انسان اپنے آپ کو وہ کچھ سمجھنے لگتا ہے جو کہ صرف اور صرف اللہ کی عطا ہے اور بسا اوقات تو وہ خوبیاں اس میں موجود بھی نہیں ہوتی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کبر تو صرف اللہ کی صفت ہے۔۔۔۔ اس برائ کے خاتمے کے لیے ہمیں چاہئے کہ ہم خود بھی آوٹ اپنے پیاروں کو بھی اللہ کی عظمت سے روشناس کرائیں اس جہان فانی کے رموز و اوقات کی تعلیم دیں اور اس بڑھ کر نعمتوں کے لئے اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس تکبر سے نجات کا بہترین طریقہ ہے۔
ایسے ہی نمود و نمائش وہ حسین چیز ہے جو کہ انسان کو بہت بجلی لگتی ہے اور وہ خود نمائ کی وجہ سے اپنے آپ میں مگن رہتا ہے اس کی چاہت ہوتی ہے کہ لوگ اسے دیکھیں اس کو سراہیں اس کی ہر ہر چیز کی تعریف و توصیف کریں اور یوں اس نمود و نمائش کے ذریعے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ انسان نمود و نمائش کے لئے اپنے بجٹ کو بھی بڑھاتا رہتا ہے اور دوسرے بھی competition کے چکر میں اپنے آپ کو ہلکان کرتے ہی حد تو یہ ہے کہ اس طرح کا کومپیٹیشن ہمیں مذہبی تہواروں میں بھی نظر آتا ہے۔
ان مسائل سے اگر ایک قدم آگے کی بات کریں تو اس کے بعد بغض، کینہ، حسد کی آگ میں انسان خود جلتا ہے اور یوں اس کا زہر بھرا لاوا لوگوں کے سامنے یوں عیاں ہوتا ہے کی اس کو کسی کی بھی کوئ چیز اچھی نہیں لگتی بلکہ یوں کہئے کہ وہ جلن کی وجہ سے لوگوں کے اچھے کاموں کو بھی بری نگاہ سے دیکھتا ہے اور پھر لوگوں کی غیرموجودگی میں غیبت کرتا ہے وہی غیبت جس کے متعلق نبی محترم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ غیبت کرنے والے نے گویا اپنے مسلمان بھائ کا گوشت کھایا یوں انسان آدم خور تو بن ہی جاتا ہے بلکہ روز قیامت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندگی بھی اپنے نامہ اعمال میں ڈال لیتے ہیں۔
یہاں غیبت کے متعلق ایک اہم بات ضرور ملحوظ خاطر رکھنی ہوگی کہ جب کوئ شخص اپنے کسی بھائ کسی رشتے دار کسی اپنے کا ذکر اپنے بچوں یا چھوٹوں کے سامنے کرتا ہے تو وہ باتیں بظاہر اس وقت کوئ مسئلہ نہیں ہوتیں لیکن یہ لاوا آہستہ آہستہ ان کے ذہنوں میں بنتا رہتا ہے اور بعد میں یہ آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے اس ضمن میں ایک بات بہت غور طلب ہے کہ انسان اپنی ماں کے لئے بہت حساس ہوتا ہے تو خاص کر ماؤں کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کے سامنے کسی بھی اپنے کے متعلق کوئ بھی بات کرنے سے احتیاط کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کینہ، حسد، نمودونمائش، غیبت، اختلاف رائے اور دوسروں سے سبقت لے جانے جیسے عوامل سے گریز کریں تاکہ ہم اپنی اور اپنے اپنوں کی زندگیوں میں اس خطرناک لاوا بننے سے بچائیں تاکہ اس آتش فشاں کو ہولناکیوں سے اپنے آپ کو اپنے اپنوں کو اپنے گھر اپنے خاندان اور اپنے معاشرے کو محفوظ کرسکیں۔