وطن عزیزپاکستان میں کتنی ہی سیاسی اور مذہبی جماعتیں موجود ہیںکہ جوکسی بھی کام کے لیے اگر بھرپور کوشش کریں تو کچھ بعید نہیں کہ وہ اپنی جدوجہد کے مطابق کچھ حاصل نہ کر سکیں۔بہت سی ذمہ داریوں میں سے ایک ہماری برسر اقتدار حکومت اور سیاسی و مذہبی جماعتوں پر ایک ذمہ داری عائدہے وہ ہے دختر پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ۔ جب سے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بے بنیاد الزام کی بنا پر پابند سلاسل ہیں،اس وقت سے وطن عزیز میںکئی حکومتیں آئیں اوراپنے اقتدار کے دن گزار کر چلی گئیں، لیکن قوم کی بیٹی عافیہ کے لیے سوائے بیانات کے کوئی کچھ نہ کرسکا ،جوکہ ہمارے اقتدار میں بیٹھے افراد کے لیے لمحہ فکریہ ہے… ۔ آخرکیا وجہ ہے کہ ملک پاکستان کے ایوانوں میں بیٹھے حکومتی افراد اور ہمارے حکومتی ادارے اتنے ہی بے بس اور لاچار ہو چکے ہیں کہ جو اپنے ہم وطنوں کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے اقدامات نہیں کرتے؟۔
قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی غیرملکی جیل کی قید میں ہے اور ہمارے حکمران اور اپوزیشن جماعتیں اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور بے گناہ قید میں دن گزرتے جارہے ہیں ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حالات زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ قوم کی بیٹی کوئی عام خاتون نہیں بلکہ وطن عزیز’’ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان‘‘ کاایک بہترین اثاثہ تھی۔وہ اعلی تعلیم یافتہ اور بہترین تحریری و تقریری صلاحیتوں کی مالک تھی۔انھوں نے امریکی یونیورسٹیوں سے آئی ٹی ٹیکنالوجی کے مختلف علوم میں گریجویشن اور پی ایچ ڈی بھی کیاہوا ہے۔ دین اسلام سے محبت اور عقیدت اتنی کہ علم کی پیاس بجھانے کے لیے وہ خاص طور پر امریکہ سے پاکستان آئیں۔ شوق سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی، قرآن مجید اور علوم اسلامیہ سے دلچسپی اس قدر کہ ان پر اچھی طرح عبورحاصل کیا اوریہ ان کی اضافی قابلیت تھی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قابلیت کا اس بات سے بھی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ گلستان شاہ لطیف اسکول سے لے کر ایم آئی ٹی برینڈیز جیسی امریکہ کی بہترین جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول تک، ان کا تعلیمی ریکارڈ بہترین اور قابل تعریف رہا۔ معاشرے کو مثالی بنانے اور اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم سے انقلاب لانے کی جستجو رکھتی تھیں۔ سادہ الفاظ میں اگر یہ کہہ لیا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وہ تعلیم کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی ان کا خواب تھا۔بہت زیادہ خوبیوں کی مالک تھی (اللہ تعالیٰ جلد از جلد رہائی عطافرمائے)۔
اس قوم کی بیٹی پرامریکہ نے نے الزامات لگا کر2003 میں گرفتار کر لیااور بقاعدہ طور پر 23 ستمبر2010ء کو دختر پاکستان عافیہ صدیقی کو امریکاکی ایک عدالت کے متعصب جج نے بغیر ثبوت اور گواہوں کے دنیا کے عدالتی نظام پر سیاہ دھبہ لگاکر 86 سال کی قید سنا دی۔اس امریکی عدالت کے فیصلے کو اگر’’انصاف کا قتل ‘‘ کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔جب سے قوم کی بیٹی پابند سلاسل ہے اسی وقت سے قوم کا دکھ درد رکھنے والے عافیہ بہن کی رہائی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔پاکستانی عوام اپنے اپنے انداز میں عافیہ کی ظلم کی داستان بیان اور شیئر کر تے رہتے ہیں۔جو کہ ان شاء اللہ ضرور رنگ لائیں گی۔ لیکن باوجود اس کے پھر بھی ہر شخص،تنظیم ، فائونڈیشن اور ادارے کو اپنی استطاعت کے مطابق بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ بے گناہ سزا جلد ختم ہو جائے اوراس لیے بھی کہ یہ ایک فرد کا معاملہ نہیں بلکہ ہم سب پاکستانیوں کا اجتماعی مسئلہ ہے اور اس حوالے سے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ا فرد کو کردار ادا کرنا چاہیے، کیونکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرناہم سب کا اجتماعی فریضہ ہے۔اس ضمن میںہمیں کیسے اپنی عافیہ بہن کی مدد کرنی چاہیے ۔وہ اس طرح کہ اپنی قید بہن کے حق میں عالمی برادری کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے اپنی تحریری،تقریری،ابلاغی،دعوتی،نثری اور شعری وغیرہ جس میدان میں بھی کوئی اظہار یکجہتی کر سکتا ہے وہ اپنی صلاحیتوں کوبروئے کار لائے۔رب العزت اہل پاکستان کو وہ دن جلدہی دیکھنا نصیب کرے،کہ ہماری یہ مظلوم، مگر جذبہ اسلام سے سرشارہماری عظیم بہن اپنے وطن عزیز ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘میں آزاد ہو کر عظیم نعمت ’’آزادی ‘‘سے سرفراز ہو کر سانس لے رہی ہو۔آمین یا رب العالمین