آج سیدیؒ کو ہم سے بچھڑے 41 برس ہو گئے ہیں لیکن وہ بچھڑ کر بھی نہین بچھڑے ان کی تحاریر آج بھی کسی شفیق بزرگ کی طرح انگلی پکڑ کر ساتھ ساتھ لئے چلتی ہیں کوئی انہیں مدبر کوئی مفسر اور کوئی مفکر مجدد کے طور پر جانتا ہوگا ۔
میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بیسویں صدی کے فکری محاذ کے گوریلا کمانڈر کے طور پر جانتا ہوں ایسا کمانڈر جس کے پاس شائستگی ،متانت ،سنجیدگی ،استدلال کردار اور حسن اخلاق کے ہتھیاروں اور تکنیک کی کمی نہ تھی انہوں نے الحاد کی جڑوں پر وار کیا اور لادینیت کے جمتے قدم اکھاڑ دیئے۔
میں حیران ہوتا ہوں جب کچھ لوگوں کو ان پر پاکستان کی مخالفت کا الزام دھرتا دیکھتا ہوں انہوں نے پاکستان کی نہیں قائداعظم کی جیب میں پڑے کھوٹے سکوں اور مسلم لیگ کی تیار لاری میں چڑھنے والے ان مسافروں کی نشاندہی کی تھی جن کے ارادے ٹھیک نہ تھے آج پاکستان جہاں ہے وہ ان کے خدشات وسوں پر مہر تصدیق ہی تو ثبت کرتا ہے ۔
اورپھر اس پاکستان مخالف کو دیکھیں کہ جب 1964 میں انہیں ایوب خان اٹھا کر جیل میں ڈالتا ہے تو 9 ماہ بعد عدلیہ کے حکم سے رہائی ملتی ہے اور چند ماہ بعد ہی 65ء میں جنگ چھڑ جاتی ہے ایوب خان سب کو ایک صف میں کھڑے ہونے کی اپیل کرتا ہے اور دوسرے ہی دن یہ ’’پاکستان مخالف ‘‘ خود کو جیل میں ڈالنے والے سے ملنے کے لئے موٹر کار پر چل پڑتا ہے کہ پاکستان مشکل میں ہے اور پاکستان کے لئے ہم سب آپکے ساتھ ہیں آج سیدی ساتھ نہیں مگر ان کی فکر آج بھی تاریکیوں میں لائٹ ہاؤس ہے اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان سے خوب راضی رہے