لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

تابندہ بیگم دوپہر کے کھانے کے ساتھ اپنے آئندہ دنوں کا لائحہ عمل بھی تیار کر رہی تھیں۔ ناشتے کے وقت ان کے شوہر حامد صاحب نے اپنے بڑے بھائی واجد صاحب کی اگلے دن صبح کی ٹرین سے آمد کی اطلاع دی تھی۔

اہم بات یہ تھی کہ وہ اکیلے نہیں بلکہ رخشی کو بھی لے کر آرہے تھے اور صرف ساتھ لا نہیں رہے تھے بلکہ یہیں چھوڑ کر بھی جانے والے تھے۔ کوئی اور معاملہ ہوتا تو یقیناً وہ بڑی خوش ہوتیں یا شاید خوش وہ ابھی بھی تھیں پر مطمئن نہیں تھیں۔

لاڈوں کی پلی لیکن نہایت با سلیقہ اور نیک سیرت رخشی اْن کے شوہر کی اکلوتی بھتیجی تھی۔ اپنی کوئی اولاد نہ ہونے اور ہمیشہ ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے اور بھی زیادہ پیاری رہی تھی۔ ساس سسر ساتھ ہی رہتے تھے اور باقی دو چھوٹی نندیں اور ایک دیور اپنی اپنی شادیوں کے فوراً بعد ہی باہر چلے گئے تھے اور وہیں مقیم تھے اس لیے ان کے بچوں سے لگاؤ اور محبت ہوتے ہوئے بھی وقتی ملنا جلنا ہی ہوتا تھا اور وہ سب تھے بھی بہت چھوٹے۔ رخشی تو تابندہ بیگم کی شادی کے وقت چھوٹی سی تھی اور ایک ہی مکان کے دو الگ حصوں میں رہتے ہوئے بھی یعنی اِن کے سامنے ہی بڑی ہوئی اور اپنی  منفرد طبیعت کی وجہ سے سب کی آنکھوں کا تارا بنتی گئی۔ دونوں بھائیوں کا کاروبار پھیلا تو حامد صاحب والدین کے ساتھ ملک کے دوسرے حصے میں آکر آباد ہوگئے کیونکہ کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے اسکول کالج کے جھمیلوں سے فرصت تھی اور کاروبار کی وجہ سے بھی آبائی شہر آنا جانا لگا رہتا اسی طرح واجد صاحب بھی کام کے سلسلے میں آتے جاتے رہتے اور بیوی بیٹی کو بھی موقع بموقع ساتھ لاتے رہتے اور عیدیں تو اکیلے کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا  یوں رشتوں کی مضبوطی وقت کے ساتھ بڑھتی ہی گئی۔

رخشی کی شادی کے وقت بھی تابندہ بیگم جی جان سے ہر کام میں پیش پیش رہیں تھیں کیونکہ اس وقت تک ساس سسر بھی دنیا سے گزر چکے تھے اور بھابی جان کو بھی ان کے ہونے سے بہت سہارا ملا لیکن اب تو ایسا لگ رہا تھا جیسے سب بالکل بے سہارا ہوگئے ہوں۔۔۔

رخشی کی شادی کو کافی لمبا عرصہ گزر چکا تھا لیکن اللہ کی مرضی سے اب تک کوئی اولاد نہ ہوئی تھی، نامور ڈاکٹروں کو بھی دکھا چکے تھے لیکن سب کا ایک ہی جواب ہوتا کہ بظاہر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے آگے اللہ کی مرضی۔ تو بس اللہ کی مرضی کے آگے سر تسلیمِ خم کیے وقت گزرتا گیا اور اس بات کا گھر والوں نے کبھی کوئی مسئلہ بھی نہیں بنایا۔ سوائے اولاد کے اللہ کا دیا سب کچھ تھا، اپنا بڑا سا گھر جو راحیل نے رخشی کی پسند کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنوایا تھا، نئے ماڈل کی گاڑیاں، بینک بیلنس، ہر سال رخشی اور راحیل دفتر کی سالانہ چھٹیوں میں گھومنے پھرنے بھی ضرور جاتے کبھی اندرونِ ملک تو کبھی بیرونِ ملک اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے شوق اور لگن سے حج اور عمرہ بھی کر چکے تھے۔

سسرال میں رخشی اور  اس کے شوہر  راحیل کے علاوہ بس سسر اور نند ہی تھے۔ سسر جھولی بھر بھر کر فرمانبردار بہو کو دعائیں دیتے اور نند بھی ہمیشہ چھوٹی بہنوں کی طرح رہتی۔ اسی نند کی شادی کچھ مہینے پہلے رخشی نے پوری ذمہ داری سے نمٹائی تھی اور اسے محبتوں اور دعاؤں کے سائے میں بیرونِ ملک رخصت کیا تھا تو اب گھر میں بہت سناٹا سا محسوس ہوتا تھا۔

مگر پھر نصیب پر جو سناٹا طاری ہوا اس کا جمود ٹوٹ نہیں پا رہا تھا۔

شادی سے فارغ ہونے کے ایک ہفتے بعد راحیل اپنے دفتری کام کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے تھے، ساتھ تو وہ رخشی کو بھی لے جانا چاہتے تھے کیونکہ اس ملک میں راحیل کے بہت سے قریبی رشتہ دار تھے اور کئی سال سے ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن گھر میں سسر کے اکیلے ہونے کی وجہ سے وہ نہیں گئی۔ یوں راحیل اکیلے گئے لیکن جب ایک مہینے بعد واپس آئے تو اْن کی سوچ اکیلی نہیں رہی تھی۔ اس بار تحفے تحائف بھی نہیں لائے تھے، مزاج بہت اکھڑا اکھڑا سا رہتا بس لیے دیے کام کی بات کرتے۔ ایسا لگتا محبت کہیں کھو گئی ہے۔ بہت دن تک رخشی اس کھوئی ہوئی محبت کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہی مگر بے سود یہاں تک کہ راحیل کی انداز و اطوار کی تبدیلی رخشی کے سسر سے بھی پوشیدہ نہ رہی وہ بھی حیران و پریشان تھے کہ یکایک کیا ہوگیا۔ جب ایک دن دو ٹوک بات کی تو پتا چلا کہ وہ تو بہت کچھ اپنے دل میں بھرے بیٹھے تھے اور پھر سارا غبار ایک ساتھ ہی نکال دیا۔

جب وہ دفتری کام سے بیرونِ ملک گئے تھے تو وہاں بڑی خالہ اور بڑے ماموں نے انہیں احساس دلایا کہ اولاد نہ ہونے پر انہیں اب تک رخشی کو ساتھ رکھنے کی کیا ضرورت تھی، یہ رخشی اور اس کے میکے والوں کی چالاکی ہے تاکہ وہ ساری جائیداد پر قبضہ کر سکیں، اور اب تو انہیں دوسری شادی کر لینی چاہیے۔ یہ سب سن کر رخشی کی تو زبان کنگ رہ گئی مگر اس کے سسر فوراً بولے کہ یہ بات ہر ڈاکٹر بتا چکی ہیں کہ اولاد نہ ہونے میں رخشی یا تمھاری کسی کی کوئی کمی نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے وقت نہیں پھر اس کا کیا قصور ؟ مگر ٹھیک ہے اگر تمھیں دوسری شادی کرنی ہی ہے تو یہ تمھارا حق ہے مگر اس گھر میں رہنے کا رخشی کا حق ہے۔ تم شوق سے دوسری شادی کرو مگر اس کے ساتھ عدل رکھنا اور دوسری بیوی کو اوپر کی منزل میں یا دوسرے گھر میں رکھنا تاکہ کسی کا دل خراب نہ ہو اور وقت کے ساتھ سب عادی ہو جائیں۔ اور یہ جو رویہ اپنا رکھا ہے تم نے اس کے ساتھ تو سب سے پہلے اس کی معافی مانگو اور مجھ سے بھی کیونکہ یہ میری سگی بیٹی سے بھی بڑھ کر ہے۔ رخشی کو یہ سب سن کر بڑی تقویت ملی کہ چلو اب سب ٹھیک ہو جائے گا مگر راحیل کی آنکھوں پر جانے کیا پٹی باندھی گئی تھی کہ وہ تو کچھ سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے بس بیوی کو فوری طور پر چھوڑنے کے لیے تیار تھے اور رخشی کو فوری اپنے میکے جانے کا حکم بھی دے دیا اور کہا کہ ڈرائیور کے ساتھ ابھی کہ ابھی یہاں سے چلی جاؤ۔ وہ بیچاری بولتی سمجھاتی روتی رہی لیکن بے سود اور سب سے بڑھ کر کچھ سمجھ بھی نہیں آرہا تھا کہ کیا ناگہانی آفت آ پڑی ہے۔ نہ بوڑھے باپ کی چلنے دی نہ ہی وفا شعار بیوی کی قدر کی یہاں تک کہ زبردستی گاڑی میں بٹھا کر ڈرائیور سے بولا اسے گھر چھوڑ آؤ۔ ڈرائیور بھی سالوں پرانا تھا کچھ پریشان سا ہوگیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے مگر ظاہر ہے ملازم تھا کیا بول سکتا تھا یہاں تو گھر والوں کی ایک نہ چلی ، چپ چاپ رخشی کو گھر چھوڑ آیا۔

وہ خالی ہاتھ بے سروسامان  گھر پہنچ کر شدید زہنی دباؤ کا شکار تھی اور مستقل بیمار تھی۔ اس کے سسر نے فون پر اس کے ابا اماں سے بات کر کے ساری صورتحال سے آگاہی دے دی تھی اور خود بھی رخشی سے بات کر کے اسے تسلی دیتے رہتے تھے کہ میں راحیل کو سمجھا رہا ہوں۔ مگر وہ تو کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہ تھے۔ رخشی یا اس کے والدین کا فون تو اٹھاتے ہی نہ تھے اور گھر میں اپنے ابا کی بات سننے کے روادار نہ تھے ، بہن بھی دن رات فون پر سمجھاتی مگر بے سود بس اسی سب میں مہینوں گزر گئے اْدھر راحیل کے ابا سخت بیمار پڑ چکے تھے اور اِدھر رخشی بالکل بے رونق، چپ چاپ بس زندگی گزار  رہی تھی۔ اسی لیے سب نے سوچا کیوں نہ کچھ عرصے کے لیے اسے چچا جان کے گھر بھیج دیا جائے جہاں چچی جان کی صورت میں اس کی بہترین سہیلی موجود تھی اور آب و ہوا بھی تبدیل ہو جائے گی۔

اگلی صبح وہ لوگ مقررہ وقت پر پہنچ گئے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر کچھ دیر خوش گپیوں کے بعد دونوں بھائی تو دفتر چلے گئے اور چچی بھتیجی گھر میں رہ گئیں۔ تابندہ بیگم بغور اس کا جائزہ لیتی رہیں۔ رخشی سوائے ضروری بات کے اور ہوں ہاں کے کچھ بھی نہ بولتی بس کہیں کھوئے کھوئے سارے کام کرتی جاتی اور کام سے منع کردو تو  جا کر کسی جگہ خاموشی سے بیٹھ جاتی۔ اذان ہوتی تو نماز پر کھڑی ہو جاتی، گھنٹوں قرآن لے کر بیٹھی رہتی، بہت لمبی دیر تلک اذکار کرتی چلی جاتی۔ اس کے ابا تو واپس جا چکے تھے اور وہ یہاں ہوتے ہوئے بھی یہاں نہیں تھی۔ حامد صاحب اور تابندہ بیگم کئی بار گھمانے پھرانے باہر بھی لے گئے لیکن اسی خالی الذہنی کے عالم میں وہ جا کر واپس بھی آجاتی۔ غرض اسی طرح کئی دن گزر گئے۔۔۔

دونوں میاں بیوی پریشان تھے کہ کس طرح رخشی کو اس سکوت سے باہر نکالیں۔ ایک دن کچن میں کام کرتے ہوئے تابندہ بیگم یہی سوچ رہی تھی کہ کوئی حل سجھائی دے جائے ساتھ ہی رخشی بھی گْم سْم سی کھڑی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔

انہوں نے کہنا شروع کیا ’’دیکھ رہی ہو رخشی کیسے یہ پرندے روز دانا اور پانی لینے باغ میں اترتے ہیں، گرمی ہو یا سردی چاہے بارش، موسم کے تغیر ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں لاتے۔ بس اپنی پیاری چہچہاہٹ سے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے رہتے ہیں۔‘‘

’’پتا ہے چچی جان ابا جان بھی یہی کہتے تھے کہ میں اپنے گھر میں چہچہاتی پھرتی ہوں۔۔۔ یا شاید ان کے گھر میں کیونکہ میرا گھر تو نہیں تھا وہ۔۔۔ اور پتا ہے بابا جان بتا رہے تھے کہ ابا بہت زیادہ بیمار رہنے لگے ہیں۔۔۔مگر میں کیا کر سکتی ہوں؟‘‘رخشی اداسی سے بولی۔

’’ہاں واقعی تم کچھ نہیں کر سکتی، کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا، سوائے دعا کے،خاندان کے بڑے مسلسل راحیل سے بات کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں لیکن فلحال ان کا دل سخت ہے مگر اللہتعالٰی جلد ہی کوئی نا کوئی سبب پیدا کر دے گا ان شاءاللہ لیکن یہ بتاؤ کہ زندگی کے نشیب و فراز کی وجہ سے تم نے کیوں اپنے معمولات بدل دیے، اپنے آپ کو بالکل چھوڑ دیا؟؟؟‘‘ تابندہ بیگم نے امید دلائی اور پوچھا۔

’’کتنے مہینے گزر گئے ہیں چچی جان، مجھے سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں، کہاں سے چیزوں کا سرا پکڑوں، کیسے سب کچھ ٹھیک کر دوں؟ جب کہ میری تو کوئی غلطی بھی نہیں، راحیل کیسے اتنے کٹھور ہو سکتے ہیں، اتنے ظالم۔۔۔ ؟؟؟ وہ کہتے ہیں کہ جلد مجھے طلاق دے دیں گے۔۔۔میں نے تو ہمیشہ سب کے ساتھ بھلائی کی، احسان کا معاملہ رکھا۔۔۔ کیا میں اتنی بری ہوں، کیا کسی بھی بھلائی کے قابل نہیں ؟؟؟ میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ میرا دل کتنا دْکھتا ہے، کبھی کبھی سینے میں ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں، جائے نماز سے اٹھنے کا دل نہیں چاہتا، زندگی سے بیزاریت ہو گئی ہے، بس سراپا دعا بنی رہتی ہوں، کہ اللہ کے رحم و انصاف کے انتظار تک میری ہمت بندھی رہے۔’’رخشی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور اپنا دل ہلکا کر رہی تھی۔ تابندہ بیگم نے اسے دل کھول کر رونے اور بولنے دیا کیونکہ دل تو دْکھا تھا نا ! وہ غلط تو نہیں رو رہی تھی، ظلم تو ہوا تھا نا! وہ سچ مچ تکلیف میں تھی۔۔۔

جب رو رو کر تھک گئی اور چْپ ہوئی تو انہوں نے بولا کہ ’’اچھا یہ پانی پیو اورکمرے میں ہیٹر کے پاس جا کر بیٹھو، بارش تیز ہونے سے سردی بڑھ گئی ہے، میں ابھی کافی بنا کر وہیں لاتی ہوں۔‘‘

رخشی اْٹھ کر اندر چلی گئی اور وہ جلدی جلدی کافی بنانے لگیں۔ ٹرے میں کافی کے ساتھ اسکا پسندیدہ کیک ، مونگ پھلی اور کینو بھی رکھے، کچن کا چولہا اور لائٹ بند کر کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں کیونکہ ابھی کچن سے زیادہ ان کی بھتیجی کو ان کی ضرورت تھی۔ ٹرے میں دھواں اڑاتی خوشبودار کافی اور لوازمات دیکھ کر رخشی پھیکا سا مسکرائی اور دونوں اطمینان سے بیٹھ کر چیزوں سے لطف اندوز ہونے لگیں۔

کچھ دیر بعد تابندہ بیگم نے بولنا شروع کیا۔۔

 ’’سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گی کہ الحمداللہ تم نے جو بھی کچھ بولا اْس میں مایوسی اور اللہ سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ کیونکہ یہ سنتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے کہ جب دل دکھے گا تو آنکھ تو ظاہر ہے کہ روئے گی لیکن زبان شکر ہی بولے گی۔

تم نے پوچھا کہ تمھاری غلطی کیا ہے؟ تو تمھاری غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی راحیل ایسے ہوگئے ہیں تو بیٹی یہی دراصل تمھاری آزمائش ہے۔

جہاں تک تم نے بات کی کہ کیا تم کسی بھی بھلائی کے قابل نہیں ہو تو جواب تمھارے سامنے ہے۔ بالکل کی ہے اس رب نے تمھارے ساتھ بھلائی کہ تمھارے سْسر اور نند دونوں تمھاری حمایت میں بات کرتے ہیں اور مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور میکے والے اس کڑے وقت میں تمھارا سہارا بنے ہوئے ہیں۔ پھر الحمداللہ تمھارے پاس شعور ہے کہ اپنی پریشانی کا واویلا کر کے دنیا کے آگے تماشہ نہیں بنی ہوئی ہو بلکہ اپنا غم غلط کرنے کے لیے اللہ سے رجوع کررہی ہو۔

پھر میری جان ہمت ہارنا تو درست ردِعمل نہیں ہوا نا!

مانا بہت مشکل وقت ہے لیکن دیکھو ذرا کتنا وقت گزر بھی چکا باقی بھی بیت جائے گا۔ یہ دنیا تو ویسے بھی ہم مسافروں کے لیے بس چند دنوں کا پڑاؤ ہے۔‘‘

’’وہ سب تو ٹھیک ہے چچی جان لیکن آپ لوگوں کو اندازہ نہیں میرے کرب کا، اکیلے پن کا، آپ لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے‘‘ رخشی نے تھکے تھکے سے انداز میں کہا۔

تابندہ بیگم چند لمحے اسے خاموشی سے دیکھتی رہیں اور پھر پوری شفقت سے مسکرا کر بولیں،

’’پیاری بیٹی مجھے دوسروں کا تو نہیں پتا۔ ہاں اپنے بارے میں پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ میں تمھارا کرب کافی سمجھ سکتی ہو۔ دیکھو رخشی تمھارے سامنے کی بات ہے میرے بھی کوئی اولاد نہیں اور اس معاملے میں تو کمی بھی مجھ میں تھی تو سوچو کیا میں نے مشکلات کا سامنا نہیں کیا ہوگا، اب تم کہو گی کہ کم از کم مجھے کسی نے گھر سے تو نہیں نکالا تو اس کا جواب بس یہی ہے کہ میں نے اپنی کمی کا خمیازہ کس کس طرح پورا کیا اور یہ سب کرنے میں کیا کیا نہیں جھیلا لیکن آخر کار سرخرو ہوئی، اللہ تعالٰی کے بعد گھر کے کچھ بزرگوں  کو بہت کچھ پتا ہے لیکن شکر انہوں نے میری عزت رکھی۔تمھیں کیا معلوم بیٹی کہ کبھی گھر سے دھکے کھا کر نکالی گئی یا نہیں۔۔۔ لیکن میں ہمیشہ یہی سوچا کرتی تھی کہ میری مصیبتیں اْن مصائب کے سامنے کوئی اوقات نہیں رکھتی جو میرے پیارے رسول نے جھیلے۔ ان کی زندگی سے تو ہر طرح کے موقع پر صبر کرنا سیکھا جا سکتا ہے۔

365 بتوں کا شہر اور 1 نعرہ حق اور  بدلے میں دینا پڑا 23 سال کا صبر اور میں ان کی امتی ہوتے ہوئے اتنی جلدی ہمت ہار جاؤں۔جانتی ہوں کہ راستے کٹھن ہوں تو منزلیں حسین ہوتی ہیں اور یہاں تو معلوم ہے کہ منزل جنت ہوگی پھر بھلا صبر کیوں نہیں، اک ذرا انتظار کیوں نہیں ؟

بس یہی سوچتی رہی اور الحمداللہ زندگی گزرتی رہی اور اس رب نے جس حال میں بھی رکھا بہترین رکھا۔ ورنہ میری زندگی بھی عذاب بن جاتی۔ اب کس کی غلطی، کس کا قصور، کس کو سزا ملنی چاہیے اور کس کا گریبان پکڑ کر سوال ہونا چاہیے ؟ اِس بحث میں پڑنے کا کیا فائدہ اور اِن باتوں کو سوچ سوچ کر میں اپنی بقیا زندگی کیوں خراب کروں۔۔۔اصل منصف اللہ سبحان و تعالٰی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کس کا کیا قصور تھا۔بس جو گزر گیا اْسے میں گزار آئی ہوں اب زبان سے دہرانا بھی نہیں چاہتی اسی لیے میں نے سچے دل سے اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو معاف کر دیا ہے اور

 اِن شاء اللہ روزِ محشر بھی یہی کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔‘‘

رخشی حیرت میں ڈوبی اْن کی باتیں سن رہی تھی اور دل میں ان کے لیے تعظیم کہیں زیادہ بڑھ چکی تھی۔

 وہ کہہ رہی تھیں،

 ’’اور اسی لیے میں تمھیں اِس پر درد زندگی سے نکال کر حقیقی زندگی کی طرف لانا چاہتی ہوں جہاں تم عشقِ مجازی کے بجائے عشقِ حقیقی کو محسوس کرنے لگو۔ دیکھو زندگی میں آگے کیا اور کب آنے والا ہے یہ تو ہم دونوں کو معلوم نہیں۔ قسمت کے فیصلے قسمت لکھنے والا جانے لہٰذا اسی پر چھوڑ دو اور یہ طے کرو کہ تمھیں اپنی زندگی کیسے گزارنی ہے؟ کیا اسی طرح گھسیٹ گھسیٹ کر تو یاد رکھنا کہ ہماری زندگی کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے، تو جب اس بات کا شعور رکھتی ہو تو میری جان اس کے لیے قیامت کے دن جوابدہ بھی تو ہونا پڑے گا نا! اپنی زندگی کا صحیح مقصد ڈھونڈو اور درست سمت کا تعین کرو۔‘‘

’’ہاں ہاں بالکل کروں گی چچی جان، پر کیسے اور کیا کروں گی تو یہ سب ممکن ہو پائے گا جو آپ کہہ رہی ہیں؟‘‘ رخشی نے بیتابی سے پوچھا۔

’’میری گڑیا سب سے پہلے تو راحیل کو سچے دل سے معاف کر دو، اپنے گناہوں پر سچی توبہ کر لو، اسی راحیل کی ناپسندیدگی کی وجہ سے تم نے آج تک باقاعدہ پردہ نہیں کیا بس اب پرانے وقتوں میں کی غلطیوں کا مداوا کرنے کا وقت آگیا ہے، پردے کا اہتمام کرو، اپنے لیے صبرِ جمیل کی دعا کیا کرو، رب سے بہترین گمان اور امید رکھو لیکن انتظار کرنا چھوڑ دو، اب اپنی شادی شدہ زندگی کی یادوں کو دہرانا چھوڑ دو ، راحیل کی محبت کے لیے بیتاب ہونا چھوڑ دو بس اب سے اپنی ساری اْلفتیں اس ایک رب پر نچھاور کرنا شروع کردو۔ اپنے خالق سے جڑ جاؤ کہ اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔تم دنیا سے منہ موڑ کر اللہسے لَو لگاؤ وہ خود دنیا تمھارے قدموں میں ڈھیر کر دے گا۔۔۔اب تک تم نے اللہکی ذات سے صرف اور صرف لیا ہے مگر اب سے صرف دینا شروع کردو بغیر کسی بدلے کی آس لیے۔۔۔‘‘ تابندہ بیگم شدت جذبات سے کہتی چلی گئیں۔

’’ٹھیک کہا آپ نے چچی جان، آپ نے تو جیسے مجھے جھنجھوڑ ڈالا، کتنا اچھا ہوا جو بابا اور اماں نے مجھے آپ کے پاس بھیج دیا، میں ضرور جڑوں گی اللہ سے، قرآن سے، رسول سے، ہر ایک خیر سے، اور اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کر دوں گی، میں دین کی تعلیم حاصل کروں گی چچی جان بس آپ دعا کریں۔۔۔

بلکہ ہاں اس سے یاد آیا کہ میں آپ کے ساتھ اْس قرآن انسٹیٹیوٹ چلوں گی جہاں سے آپ نے اس شہر آنے کے بعد دین کی تعلیم حاصل کی تھی۔ آپ مجھے لے جائیں گی نا وہاں داخلے کے لیے؟‘‘ رخشی نے پرْامید ہو کر پوچھا۔

’’لو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟ ضرور جاؤں گی تمھارے ساتھ اور فخر سے سب کو بتاؤں گی کہ یہ میری بیٹی ہے۔ سچ بتاؤں تو میں تمھارے منہ سے یہی سننا چاہ رہی تھی۔۔۔ الحمد اللہ ‘‘ اب تو وہ روتے ہوئے مسکرا رہی تھیں کہ رخشی اْن سے لپٹ گئی اور روتے روتے دونوں ہی ہنسنے لگیں۔

’’ہیں ہیں ہیں، بھئی خیریت تو ہے۔ باہر پہلے ہی اتنی تیز بارش ہو رہی ہے جب اندر آئے تو یہاں بھی موسلادھار برسات جاری ہے اور ساتھ بادل بھی گرج رہے ہیں، اب بیگم کا ہنسنا بادل کی گرج سے کم تو نہیں نا!‘‘

حامد صاحب نے ہنستے ہوئے چھیڑا۔

’’چچاجان خبردار جو آپ نے میری چچی جان کو کچھ کہا، جتنی نازک یہ خود ہیں اْس سے کہیں زیادہ نازک ان کی ہنسی ہے‘‘ رخشی نے فوراً کہا۔

’’جی اچھا منظور ہے ہر بات جو بھی آپ لوگ کہیں پر اتنا تو بتا دیں کہ آج کھانے کو بھی کچھ ملے گا یا نہیں؟‘‘ حامد صاحب نے بیچارگی سے پوچھا۔

’’ آپ کب آئے ہمیں تو پتا ہی نہیں چلا اور اتنا وقت گزر گیا یہ بھی بالکل پتا نہیں چلا۔۔۔ اس لیے بڑے افسوس کے ساتھ اطلاع دینی پڑ رہی ہے کہ کھانا تو کچھ بھی نہیں پکا۔اب تو آپ باہر سے لے کر آئیں یا منگوائیں۔‘‘ تابندہ بیگم نے شاہانہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔رخشی نے بھی فوراً تائید میں سَر ہلایا۔

’’ جناب بیگم صاحبہ آپ نے ہماری بیٹی کو ہنسا دیا اب تو جو آپ کہیں گی وہی ہوگا۔ بندہ حاضرِ خدمت ہے۔ ابھی آپ دونوں کا پسندیدہ گرما گرم چائنیز سوپ اور کھانا آرڈر کرتا ہوں۔‘‘ حامد صاحب سعادت مندی سے کہتے ہوئے چلے گئے۔

 ’’ٹھیک ہے جب تک ہم نماز پڑھ لیتے ہیں‘‘ تابندہ بیگم یہ کہتے ہوئے رب کا شکر ادا کرتی نماز کے لیے وضو کرنے اٹھ گئیں۔ رخشی بھی اطمینان کا احساس لیے نماز کی تیاری کرنے لگی۔

باہر لاؤنج میں حامد صاحب کھانے کا آرڈر دینے کے بعد فون ہاتھ میں پکڑے سراپا دعا تھے کہ۔۔۔

 یا اللہ میری اس بیٹی پر اپنا رحم کر، اس کے لیے آسانی کا معاملہ کر دے، اس کا گھر بسا رہے، میرے گناہوں کی سزا اس طرح مت دے میرے رب، مکافاتِ عمل اس طرح مت دکھا میرے مالک ، میں تاحیات شرمندہ و شرمسار رہوں گا تیرے سامنے بھی اور تابندہ کے سامنے بھی، ایسی گوہر و نایاب شریک ِحیات کے قابل میں کہاں تھا ؟ الحمداللہ تو نے مجھے بہت نواز دیا۔۔۔ بس روزِ قیامت میری پکڑ نہ کرنا،مجھے معاف کر دینا، معاف کر دینا، معاف کر دینا۔

29 تبصرے

Comments are closed.