بے بسی ایک غر یب کی

میں مسائل میں گھرا  ایک غریب شہری ہوں جس نے ہر طرف سے مجھے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے پہلےتو رونا صر ف عام باتوں کا تھا جو شاید کہ ایک غریب شہری کا مقدر ہی ہوتا ہے یعنی پانی بجلی، اور مہنگائی جس کے باوجود زندگی کی گاڑی کسی نہ کسی طرح کھچ جاتی تھی لیکن پچھلے پانچ مہینوں سے کرونا نے جب اپنی دھاک بٹھالی تو بے روزگاری کے ساتھ ساتھ وبائ بیماری نے اپنے اندر جکڑ کر رہی سہی ذہنی حالت بھی مفلوج کر کے رکھ دی۔

غرض آج زندگی کی گاڑی مکمل طور پر دوسروں کی محتاج ہے اللہ کے کرم سے مخیر حضرات کی کرم نوازی ہے کہ کسی طرح پیٹ کی آگ بجھ جاتی ہے لیکن آخرکب تک، ایک نا ایک دن تو یہ گاڑی ہمیں خود ہی چلانی ہے

ابھی ان مسائل کا سامنا ہی مشکل تھا کہ بارش جیسی نعمت بھی زمہ دار ان کی نہ اہلی کی وجہ سے زحمت بن کر رہ گئی اور ہم چاروں طرف سے پانی کے ساتھ ساتھ مختلف پریشانیوں کا بھی شکار ہو رہے ہیں غرض مہنگائ ہو؛ بجلی کابحران بے روزگاری ہو یاوبائ امراض یا پھر ان سب کے دباؤ میں آکر زہنی امراض سب کی ٹانگ آخر میں غریب کے ناتواں کمزور آنگن ہی میں ٹوٹتی ہے کیونکہ غریب کا آنگن بہت کشادہ ہے اور ساتھ ہی وہ بے بس اور بے زبان بھی لہذا وہ ٹیکس دے کر اپنا فرض ادا کررہا ہے لیکن اسکے باوجود لوگ اسکا حق مار رہے ہیں اور آپنی جمع  پونجی کی فکر میں ہی غرق ہیں۔

    آج بے بسی کے اس مقام پر اگر غریب کا کچھہ سرمایہ حیات ہے تواسکا اپنے رب سے خاموش دعائیں کرنا  صبر و شکر اور اس یقین کے ساتھ رب پر بھروسہ کہ ایک دن ضرور آئے گا جب اسکی تمام مشکلات دور ہو جائیں گی… انشاء اللہ ۔